مندرجات کا رخ کریں

جاپان

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
رِیاسَتِ جاپان
日本国
Centered deep red circle on a white rectangle [2]
Golden circle subdivided by golden wedges with rounded outer edges and thin black outlines
'
Projection of Asia with Japan's Area coloured green
جاپان کے زیر انتظام علاقے سبز رنگ میں
دار الحکومت
and largest city
ٹوکیو [3]
35°41′N 139°46′E / 35.683°N 139.767°E / 35.683; 139.767
سرکاری زبانیںکوئی نہیں[4]
جاپانی [5]
نسلی گروہ
(2011[6])
مذہب
آبادی کا نامجاپانی قوم
حکومتوحدانی ریاست پارلیمانی نظام آئینی بادشاہت
ناروہیتو
فومیو کیشیدا
کوئی نہیں
مقننہپارلیمان جاپان
ہاؤس آف کونسلرز
ایوان نمائندگان
تشکیل
• قومی یوم تاسیس
فروری 11, 660 ق م[8]
نومبر 29, 1890
مئی 3, 1947
اپریل 28, 1952
اگست 13, 1999
رقبہ
• کل
[آلہ تبدیل: invalid number][10] (62 واں)
• پانی (%)
0.8
آبادی
• 2017 مردم شماری
126٫860٫000[11] (دسواں)
• کثافت
340.8/کلو میٹر2 (882.7/مربع میل) (چھتیسواں)
جی ڈی پی (پی پی پی)2017 تخمینہ
• کل
$5.066 trillion[12] (چوتھا)
• فی کس
$40٫090[12] (انتیسواں)
جی ڈی پی (برائے نام)2017 تخمینہ
• کل
$5.106 trillion[12] (تیسرا)
• فی کس
$40٫408[12] (پچیسواں)
جینی (2008)37.6[13]
میڈیم · 76 واں
ایچ ڈی آئی (2014)Increase 0.891[14]
ویری ہائی · بیسواں
کرنسیجاپانی ین (¥) / En (JPY)
منطقۂ وقتیو ٹی سی+9 (جاپان معیاری وقت)
• گرمائی (ڈی ایس ٹی)
یو ٹی سی+9 (نہیں ہوتا)
تاریخ فارمیٹ
ڈرائیونگ سائیڈبائیں طرف
کالنگ کوڈ81+
انٹرنیٹ ایل ٹی ڈیJp.
'ویب سائٹ
www.japan.go.jp
جاپان
لغوی معنی  State of Japan
جاپانی نام
کانجی 日本国
کانا ニッポンコク
ニホンコク
Hiragana にっぽんこく
にほんこく
Kyūjitai 日本國

جاپان (جاپانی: 日本) چڑھتے سورج کى سرزمین، براعظم ایشیا کے انتہائی مشرق میں جزیروں کے ایک لمبے سلسلے پر مشتمل ہے، جو شمال سے جنوب کی طرف پھیلے ہوئے ہیں۔ یہ شمال مغربی بحر الکاہل میں واقع  ہے اور اس کی سرحد مغرب میں بحیرہ جاپان سے ملتی ہے، جو شمال میں بحیرہ اوخوتسک سے مشرقی بحیرہ چین، فلپائنی سمندر اور جنوب میں تائیوان تک پھیلا ہوا ہے۔ جاپان رنگ آف فائر کا ایک حصہ ہے اور 14,125 جزائر پر محیط ایک مجمع الجزائر پر پھیلا ہوا ہے، جس میں پانچ اہم جزائر ہوکائیڈو، ہونشو ("مین لینڈ")، شیکوکو، کیوشو اور اوکیناوا شامل ہیں۔ ٹوکیو ملک کا دار الحکومت اور سب سے بڑا شہر ہے، اس کے بعد یوکوہاما، اوساکا، ناگویا، ساپورو، فوکوکا، کوبے اور کیوٹو ہیں۔

جاپان کی آبادی ساڑھے بارہ کروڑ  سے زیادہ ہے اور یہ دنیا کا گیارھواں سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے اور ساتھ ہی سب سے زیادہ گنجان آبادی والے ممالک میں سے ایک ہے۔ ملک کا تقریباً تین چوتھائی حصہ پہاڑی ہے۔ اس کی زیادہ شہری آبادی تنگ ساحلی میدانوں میں مرکوز ہے۔ جاپان کو 47 انتظامی پریفیکچرز اور آٹھ روایتی علاقوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ گریٹر ٹوکیو ایریا دنیا کا سب سے زیادہ آبادی والا میٹروپولیٹن علاقہ ہے۔ جاپان دنیا میں سب سے زیادہ متوقع عمر والا ملک ہے، حالانکہ اسے شرح پیدائش بہت کم ہونے کی وجہ سے آبادی میں کمی کا سامنا ہے۔

جاپان بالائی قدیم سنگی دور (30,000 قبل مسیح) سے آباد ہے۔ چوتھی اور نویں صدیوں کے درمیان، جاپان کی سلطنتیں ایک شہنشاہ اور شاہی دربار کے تحت متحد ہو گئیں جس کی بنیاد ہیان کیو Heian-kyō میں تھی۔ 12ویں صدی کے آغاز میں، سیاسی اقتدار فوجی آمروں (شوگن) اور جاگیرداروں (ڈیمیو) کے ایک سلسلے کے پاس تھا اور اسے جنگجو اشرافیہ (سامورائی) کے ایک طبقے نے نافذ کیا تھا۔ ایک صدی طویل خانہ جنگی کے بعد ملک کو سنہ 1603ء میں ٹوکوگاوا شوگنیٹ کے تحت دوبارہ متحد کیا گیا، جس نے ایک الگ تھلگ رہنے کی خارجہ پالیسی نافذ کی۔ سنہ 1854ء میں، ریاستہائے متحدہ کے ایک بحری بیڑے نے جاپان کو مغرب کے لیے تجارت کھولنے پر مجبور کیا، جس کی وجہ سے شوگنیٹ کا خاتمہ ہوا اور سنہ 1868ء میں شہنشاہی طاقت کی بحالی ہوئی۔ میجی دور میں جاپان کی سلطنت نے مغربی طرز کے آئین کو اپنایا اور اس کی پیروی میں صنعت کاری اور جدید کاری کا ایک پروگرام بنایا۔ عسکریت پسندی اور بیرون ملک نوآبادیات میں اضافے کے درمیان، جاپان نے سنہ 1937ء میں چین پر حملہ کیا اور سنہ 1941ء میں ایک محوری طاقت کے طور پر دوسری جنگ عظیم میں داخل ہوا۔ بحرالکاہل کی جنگ اور دو ایٹم بم دھماکوں کی وجہ سے شکست کھانے کے بعد جاپان نے سنہ 1945ء میں ہتھیار ڈال دیے اور سات سال کے عرصے کے لیے اتحادی طاقتوں کے زیر نگرانی رہا، جس دوران میں اس نے ایک نیا آئین اپنایا۔

سنہ 1947ء کے آئین کے تحت جاپان نے ایک متحدہ پارلیمانی آئینی بادشاہت کو برقرار رکھا جس میں ایک دو سطحی مقننہ اور قومی پارلیامنٹ ہے۔ جاپان ایک ترقی یافتہ ملک اور ایک عظیم طاقت ہے، جس کی جی ڈی پی بڑی معیشتوں میں سے ایک  ہے۔ جاپان نے اعلان جنگ کے اپنے حق کو ترک کر دیا ہے، مگر اس نے ایک دفاعی فوج کو برقرار رکھا ہے جس کا شمار دنیا کی مضبوط ترین فوجوں میں ہوتا ہے۔ گاڑیوں، روبوٹکس اور الیکٹرانکس کی صنعتوں میں عالمی رہنما ہے۔ ملک نے سائنس اور ٹیکنالوجی میں اہم شراکت کی ہے اور دنیا کے سب سے بڑے برآمد کنندگان اور درآمد کنندگان میں سے ایک ہے۔ یہ متعدد بڑے بین الاقوامی اور بین الحکومتی اداروں کا حصہ ہے۔

جاپان کو ثقافتی سپر پاور سمجھا جاتا ہے کیونکہ جاپان کی ثقافت دنیا بھر میں مشہور ہے، بشمول اس کا فن، کھانا، فلم، موسیقی اور مقبول ثقافت، جس میں مانگا، اینیم اور ویڈیو گیم کی صنعتیں نمایاں ہیں۔

وجہ تسمیہ

[ترمیم]

جاپان کا نام جاپانی زبان میں کانجی 本日 کا استعمال کرتے ہوئے لکھا جاتا ہے اور اس کا تلفظ نپون یا نیہون کیا جاتا ہے۔ آٹھویں صدی کے اوائل میں 本日 کو اپنانے سے پہلے، ملک کو چین میں وا (倭، جاپان میں سنہ 757ء کے قریب تبدیل کرکے 和) اور جاپان میں مترادف لفظ یاماتو کے نام سے جانا جاتا تھا۔

نیپون یعنی 本日 حروف کی اصل چینی-جاپانی پڑھائی، سرکاری استعمال کے لیے پسند کی جاتی ہے، بشمول جاپانی بینک نوٹ اور ڈاک ٹکٹ پر۔ نیہون عام طور پر روزمرہ کی بات چیت میں استعمال ہوتا ہے اور ایڈو دور کے دوران جاپانی صوتیات میں تبدیلیوں کی عکاسی کرتا ہے۔ حروف 日本 کا مطلب ہے "سورج کی اصل"، جو مقبول مغربی تعارف "طلوع ہوتے سورج کی سرزمین Land of the Rising Sun" کا ماخذ ہے۔

"جاپان" کا نام 日本 کے چینی تلفظ پر مبنی ہے اور اسے ابتدائی تجارت کے ذریعے یورپی زبانوں میں متعارف کرایا گیا تھا۔ 13ویں صدی میں، مارکو پولو نے ابتدائی مینڈارن یا وو چینی حروف کا تلفظ 日本國 سیپانگو کے طور پر  کیا۔ جاپان کے لیے پرانا ملائی نام، جاپانگ یا جاپون، ایک جنوبی ساحلی چینی بولی سے لیا گیا تھا اور اس کا سامنا پرتگالی تاجروں نے جنوب مشرقی ایشیا میں کیا تھا، جو اس لفظ کو 16ویں صدی کے اوائل میں یورپ تک لے آئے تھے۔ انگریزی میں نام کا پہلا ورژن 1577 میں شائع ہونے والی ایک کتاب میں ظاہر ہوتا ہے، جس نے 1565 کے پرتگالی خط کے ترجمے میں نام کی ہجے گیپان کے طور پر کی تھی۔

تاریخِ جاپان

[ترمیم]

جاپانیوں کے ہاں اپنے آغاز کے بارے میں دیگر قومیتوں کی طرح کئى داستانیں موجود ہیں ۔ کہتے ہیں کہ جنت کے آقا نے اُن کی سرزمین پر دو جوان دیوتاؤں ایزاناگے اور اُن کی بیگم ایزانامے کو بھیجا جنھوں نے سمندر میں سے اُن کے لیے ایک خوبصورت ملک بنا ڈالا۔ ایک ماہرِ آثارِ قدیمہ اور اُس کے معاونین نے پتھر دور کی کچھ نشانیوں کی برآمدگی کا دعویٰ کیا تھا تاہم بعد میں تحقیق سے بات ثابت نہ ہو سکی ۔ [15]

ابتدائى دور

[ترمیم]
Emperor Jimmu (神武天皇 Jinmu-tennō؟)، the first شہنشاہ جاپان dated as 660 BCE[16][17][18] – in modern Japan his accession is marked as National Foundation Day on فروری 11

تاریخ کی ورق گردانی سے معلوم ہوتا ہے کہ چودہ ہزار سال قبل مسیح سے 300 قبل مسیح تک یہاں جومون دور گذرا ہے اور اُس دور کی تہذیب کے دریافت کیے گئے آثار سے معلوم ہوتا ہے کہ لوگ پتھر، سمندری شِلز، لکڑی اور چمڑے کی بنی اشیاء استعمال کرتے تھے اور اُن کی زیادہ تر گذر بسر جنگلی یا سمندری حیات کی شکار پر ہوتی تھی۔ اس دور کے بارے میں زیادہ تر شواہد 1992 کی اُس کھدائى کے دوران ملے جو ہانشو کے شمال میں واقع آموری علاقے میں بیس بال اسٹیڈیم کی تعمیر کے لیے کی جارہی تھی۔ کچھ ماہرین بشریات کا دعویٰ ہے کہ ہوکائیدو اور ہونشو جزائر کے باسی آئنو قبائل یہاں کے اصل قدیم لوگ ہیں۔ اِن لوگوں کی آنکھیں بڑی ہیں اور جِسم پر بال زیادہ ہیں جبکہ موجودہ جاپان میں اکثریت آبادی والے جاپانیوں کے جِسم پر بال کم ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ آئنو موجودہ روس کے مشرقی سائبریا کا ایک نسلی گروپ ہے۔ اب آئنو قبائل صرف ہوکائدو ہی تک محدود ہو چکے ہیں اور موجودہ تعداد تقریباً بیس ہزار بتائى جاتی ہے۔ اُن کی زیادہ تر آبادی اردگرد کے جاپانیوں کے ساتھ مدغم ہو چکی ہے۔ چونکہ جاپان کے اردگرد چین اور کوریا کی سرزمین بھی ہے اس لیے کہا جاتاہے کہ اِن دو اقوام کا جاپانیوں پر گہرا اثر رہا ہے۔ مثال کے طور پر 300 قبل مسیح سے 250 عیسوی تک کے یایوئے دور کے بارے میں آثار قدیمہ کی کھدائیوں سے ملنے والی نشانیوں، جیسے کپڑا بُننے، دھان کی کاشت، شامان عقائدِ عبادات، لوہے اور کانسی کے اوزار سے معلوم ہوا ہے کہ یہ فن چینیوں اور کوریائى لوگوں سے ہی یہاں پہنچا ہے بلکہ اِس بات کے شواہد ہیں کہ چین کے مشہور دریا یانگسی کے اردگرد علاقوں میں چاول کی کاشت آٹھ ہزار قبل مسیح میں شروع ہوئى تھی اور ایک ہزار قبل مسیح میں یہ جاپانی سرزمین پر پہنچی۔ یایوئے نسل نے بڑی تعداد میں کوریا کی جانب سے چڑھائى کی۔ انھوں نے آئنو قبائل کے خلاف کئى جنگیں لڑیں۔ اُن کا دورِ معیشت، جاگیردارانہ نظام کا ابتدائى دور سمجھا جاتا ہے۔ اُمراء زمینوں پر قابض تھے اور کسان اور غلام کھیتی باڑی کرتے تھے۔ علاقوں پر قبضہ جمانے کے لیے قبائل کی آپس میں جھڑپیں روز کا معمول تھا۔ جاپان کے اِس دور کے اُمراء کو معاشرے میں تعظیم اور سیاسی اثر و رسوخ اس لیے حاصل تھا کہ انھوں نے مسلح جنگجو پال رکھے تھے لیکن اُس دور میں چین میں صورت حال مختلف تھی اور وہاں دانشوروں کو بالادستی حاصل تھی۔ سنہ 238 عیسوی کے لگ بھگ چینی تاجروں نے یایوئے لوگوں سے تجارت شروع کی۔ چینی تاجر کیوشو کے علاقے میں آتے تھے۔ اُس وقت چین میں ہان شاہی سلطنت قائم تھی۔ اُس دور کے سفرناموں اور دیگر ریکارڈ کے مطابق اُس وقت کی جاپانی سرزمین 30 ریاستوں میں بٹی ہوئى تھی اور اِس میں سب سے مضبوط ریاست پر ہیمیکو کی حکمرانی تھی۔ اُس وقت کے چینیوں نے اِسے سرزمینِ وا یعنی بونے یا پست قامت لوگوں کی سر زمین کے نام سے پکارا ہے جہاں پسماندگی ہے اور لوگ ان پڑھ ہیں اور بانس کی جھونپڑیوں میں رہتے ہیں۔ تاہم اُس دور کے جاپانیوں کو اپنی ثقافت پر بڑا فخر تھا اور اِس میں سب سے زیادہ اہمیت مالک سے وفاداری کو دی جاتی تھی۔ چاول سے تیار کی ہوئى شراب ساکے بھی اُسی دور کی روایت ہے۔ تاریخ کے طالب علموں کے لیے اُن چینی تاریخی کُتب کی بہت اہمیت ہے جنہیں ٹونٹی فور ہسٹریز کہا جاتا ہے جس میں 3000 قبل مسیح سے 17 ویں صدی کی مِنگ دورِ حکومت تک کا تذکرہ ہے۔ اتنے پرانے دور کے انسان کے پاس ایسی مہارت نہیں تھی کہ وہ آنے والی نسلوں کے لیے تاریخ کا قیمتی اثاثہ سائنسی بینادوں پر مرتب کرتا اس لیے اُس تاریخ میں داستانیں رقم کی گئى ہیں اور اُس میں جاپان کا ذکر بھی ہے۔ ہمیں جاپان کی تحریری تاریخ کا ریکارڈ 57 عیسوی سے ملتا ہے جس کا ذکر چینی تاریخ کے سرکاری دستاویزات میں ہے۔ یہ ریکارڈ فان یان نے پانچویں صدی عیسوی میں مرتب کیا تھا جس میں چین کے مشرقی ہان شاہی دور کے واقعات کو ریکارڈ کیا گیا ہے۔

کوفن دور

[ترمیم]

تاریخ میں لکھا گیا ہے کہ 250 عیسوی کے آس پاس کوفن دور کا آغاز ہوا۔ یہ مضبوط فوجی ریاستوں کا دور تھا۔ اِس دوران میں ایک گروپ جِسے غالباً ہان کہا جاتا تھا اور تاریخ میں امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ وہ کوریائى تھے جنھوں نے تسوشیما کے ساحل پر آ کر یلغار کی۔ اُن کے پاس گھوڑے تھے اور وہ لوہے سے بنے اعلیٰ معیار کے اسلحے سے لیس تھے۔ کوفن دور کی فوجی صلاحیت میں اضافے سے اُن کا شمال مشرقی ایشیا کی جانب اثر و رسوخ پھیلنے لگا۔ اب جاپان منظم اور مضبوط ریاست کی شکل اختیار کرتا جارہا تھا اور کوریا کے ذریعے اُس کے براعظم ایشیا کے دیگر علاقوں کے ساتھ رابطے ہونے لگے۔ اُس دور میں ایک طاقتور قبیلہ یاماتو بھی تھا اس لیے کئى مغربی تاریخ دان اِسے یاماتو دور کے نام سے بھی یاد کرتے ہیں۔ اُس دور میں بدھ مت اور کنفیوشنیزم دونوں عقائد کے لوگ تھے۔ چینی طرز پر مرکزی انتظامی حکومت، شاہی عدالتی نظام، مالیاتی پالیسی اور خزانے کا محکمہ تشکیل دیا گیا۔ کوریا کی تین بادشاہتوں کے ساتھ قریبی تعلقات قائم کیے گئے۔ سنہ 391 میں جنوب مغربی کوریا کے بادشاہ پیکچی نے تحفے تحائف بھیجے اور ہمسایہ علاقوں سے بچانے میں مدد کی درخواست کی۔ اِس مدد کے عوض جاپان کو سونے اور جواہرات کے تحفے دیے گئے اور ساتھ ساتھ چینی زبان کی ڈکشنری دی اور جاپانیوں کو لکھائى سیکھانے کے لیے اپنے دانشوروں کو بھیجا۔ چونکہ چینی زبان کے لکھنے کا طریقہ مشکل تھا اس لیے جاپانیوں نے لکھائى کا اپنا طریقہ بھی وضح کیا۔

آسوکا دور

[ترمیم]

سنہ 538ء میں آسوکا کا دور شروع ہو چکا تھا۔ سیاسی اصلاحات شروع ہو چکی تھیں اور فن و ثقافت ترقی کرنے لگی۔ کوریا کے ذریعے جاپان میں بدھ ازم متعارف ہو چکا تھا جس سے جاپانی معاشرہ بڑی حد تک متاثر ہوا۔ اب ُملک وا کی بجائے نیہون کے نام سے پہچانا جانے لگا۔ اُس وقت چین میں تانگ دور کى حکومت تھی جس کے جاپان کے ساتھ گہرے قریبی روابط استوار ہوئے۔ اُس دور میں بادشاہ کوئى زیادہ طاقتور نہیں ہوتا تھا بلکہ اصل طاقت دربار کے اُمراء کے پاس تھی۔ شہزادہ شوتوکُو نے اپنے آپ کو بُدھ مت کے پرچار کے لیے وقف کر دیا تھا جس سے جاپانی معاشرے میں تبدیلی آنے لگی اور امن و سکون ظاہر ہونے لگا۔

نارا دور

[ترمیم]

جاپان میں آٹھویں صدی عیسوی میں نارا دور کا آغاز ہوتا ہے ۔ اِس سے قبل تک یہ روایت عام تھی کہ جب بادشاہ یا ملکہ کا شاہی محل میں انتقال ہوتا تھا تو روح کے اثر سے بچنے کے لیے وہ محل چھوڑ کر نیا محل تعمیر کیا جاتا تھا جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ایک مہنگا اور مشکل کام ہوتا گیا۔ بالاخر جاپانیوں نے سوچا کہ بادشاہ تو چینیوں کے بھی مرتے ہیں لیکن انھوں اپنے محل یا دار الحکومت کو نہیں چھوڑا، لہذا اِس عمل کو روکتے ہوئے نارا میں 710 عیسوی میں ایک مستقل دار الحکومت قائم کیا گیا۔ یہ چین کے تانگ دور حکومت میں قائم دار الحکومت چانگ آن، جو آج کل شیان کے نام سے پہچانا جاتا ہے، کے طرز پر بنایا گیا۔ اِس شہر میں ہزاروں لوگ آباد ہوئے۔ پگوڈا بنائے گئے، پارک تعمیر ہوئے اور ساکورا کے درخت لگائے گئے۔ فن و ادب ترقی کرنے لگا۔ زبان کی تحریری شکل پر جاپانی شاعری واکا بھی تحریر میں آنے لگی۔ جاپان کی مشہور داستان گینجی اور جاپان کا قومی ترانہ کیمی گایو اسی دور میں وجود میں آئے۔

اقتصادی اور انتظامی معاملات میں اضافہ ہوا۔ مرکزی دار الحکومت نارا اور صوبائى دارالحکومتوں کے مابین رابطہ سڑکیں تعمیر کی گئیں۔ ٹیکس کی وصولی شروع ہوئى اور حکومتی سکہ رائج کیا گیا۔ بدھ ازم اور شنتوازم کے حوالے سے پائے جانے والے اختلاف کو یوں حل کیا گیا کہ اُس وقت کے بااثر بھکشو گیوگی کو اِس مسئلے کا حل ڈھونڈنے کا فریضہ سونپا گیا جنھوں نے اماتے راسو نامی عبادت گاہ کے دروازے پر سات شب و روز تک عبادت کی اور رائے طلب کی۔ بالاخر سورج کی دیوی نے جواب دیا کہ یہ دونوں مذاہب، ایک ہی عقیدے کے اظہار کے دو مختلف طریقے ہیں۔ اُس کے بعد جاپان میں بدھ مت کی عبادت گاہیں تعمیر کی گئیں۔ نارا ایک شاندار دار الحکومت کی شکل اختیار کر گیا لیکن انتظامی امور کمزور تھے۔ آئنو قبائل اب بھی خطرہ تھے۔ دوسری جانب بدھ مت کے دوکیو نام کے بھکشو نے ملکہ کوکین کے ساتھ معاشقہ شروع کیا اور ملکہ کو اپنے زیرِاثر کر لیا۔ یہ بالکل ایسا ہی تھا جیسا روس میں راسپوتین نے اُس وقت کے بادشاہ کی ملکہ کے ساتھ جنسی تعلق بناکر انتظامی امور پر اثر ڈالنا شروع کر دیا تھا۔ بعد میں دوکیو نے ولی عہد یعنی کراؤن پرنس کو قتل کرکے خود کو وزیر اعظم اور اعلیٰ ترین بھکشو قرار دینے کا اعلان کیا۔ اُس کی لالچ یہیں پر ختم نہیں ہوئى اور اُس نے شنتو مذہب کے ہاچی مِن کی عبادت گاہ سے جنگ کے دیوتا کا یہ حکم حاصل کیا کہ اگر اُسے آئندہ کا شہنشاہ منتخِب کیا گیا تو وہ جاپان میں دائمی امن کا وعدہ کرتا ہے۔ ملکہ کو شک گذرا اور انھوں نے ہاچی مِن کے دیوتا سے معلوم کیا کہ کیا یہ درست ہے، تو جواب ملا کہ بھکشو کبھی شہنشاہ نہیں ہو سکتا کیونکہ اُس کا شجرۀ نسب شہنشایت کا نہیں ہوتا۔ حقائق معلوم ہونے پر نارا کے اُمراء نے بھکشو سے تمام خطابات واپس لے کر اُسے سزا کے طور پر دوراُفتادہ ایک چھوٹے سے جزیرے پر قید کر دیا۔ اب جاپانیوں نے نتیجہ اخذ کیا کہ کبھی خاتون کو منصبِ اقتدار نہیں سونپنا چاہیے۔

ہیان دور

[ترمیم]

سنہ 784 عیسوی میں دار الحکومت کو نارا سے ناگااوکا منتقل کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ تاہم گیارہ سال بعد اِس علاقے کو بد شگون قرار دے کر دار الحکومت کو ہیانکیو منتقل کیا گیا جو آج کل کیوتو کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔ یہ نارا کے مندر سے صرف 28 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ سنہ 795 عیسوی میں ہیانکیو دور شروع ہوتا ہے۔ اِس دور میں فیشن اور شعر و ادب میں خاصی ترقی ہوئى۔ عورت کو ریاست کے معاملات، اقتدار کی رسہ کشی اور سماجی سرگرمیوں میں موقع ملنے لگا۔ اور مشہور داستانِ گینجی بھی موراساکی شیکیبو نامی خاتون ہی نے تحریر کی۔ جس میں محبت کے کئى قصے رقم کیے گئے ہیں۔ اِسی دور میں سمورائی جنگجووں کا اثر بڑہنے لگا۔ اگرچہ بادشاہِ وقت مطلق العنان ہوتا تھا لیکن دربار کے اُمراء ہی اصل اختیارات کے مالک تھے اور انھیں اپنے مفادات اور اپنے تحفظ کے لیے پولیس گارڈ اور سپاہیوں کی ضرورت ہوتی تھی اور یوں جنگجو طاقتور ہوتے گئے جن میں میناتو، طائرہ، فوجی وارا اور تاچی بانا قبیلوں کو بہت طاقتور سمجھا جاتا تھا۔ 12 ویں صدی کے اواخر میں اِن قبیلوں کے مابین لڑائى نے اُس وقت خانہ جنگی کی صورت اختیار کرلی جب میناتو اور طائرہ قبائل کے مابین کیوتو اور مرکزی حکومت پر قبضہ حاصل کرنے کے لیے لڑائى شروع ہوئى۔ ہیان دور کی زوال پذیری کے ماہ و سال میں لاقانونیت اور تشدد کا دور دورۀ تھا۔ جاگیرداروں نے اپنے بیٹوں اور ملازمین کو مسلح کر دیا اور تجربہ کار جنگجؤوں کی خدمات کرائے پر حاصل کی گئیں۔ چونکہ لڑائی میں چھوٹے گروپوں کی شکست یقینی تھی لہذا انھوں نے اپنے قریب کے بڑے نوابوں کے ساتھ اتحاد کیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اِسی طرح کے جاگیردارانہ نظام کا عکس اُس وقت یورپ میں بھی نظر آرہا تھا کہ جب مرکزی حکومت کمزور پڑتی تھی تو چھوٹی علاقائى طاقتیں امن عامہ برقرار رکھتی تھیں۔ اُسی دور میں سمورائی جنگجؤوں کے لیے ایک ضابطہ تحریر کیا گیا جسے بوشیدو کہتے تھے۔ اِس کا مقصد اپنے مالک سے وفاداری کا عہد تھا۔ اپنی وفاداری کو نبھاتے وقت اُس کی بیوی، بچے یا والدین کی محبت تک حائل نہیں ہوگی اور اپنے آقا کے لیے ایک باعزت موت مرنا ہی اُس کی زندگی کا مقصد ہوگا۔ عورتوں کے لیے بھی یہی اصول تھا کہ اگر ضرورت پڑی تو انھیں بھی اپنے شوہروں کے شانہ بشانہ لڑتے ہوئے ایسی ہی موت قبول کرنی ہوگی۔ فوجیوارا قبیلے کی زوال پذیری سے پیدا ہونے والا خلا طائرہ اور میناموتو قبائل نے پُر کیا۔ اِن دونوں کے درمیان میں لڑی جانے والی پہلی جنگ 1156 سے 1160 تک چلتی رہی اور طائرہ کو فتح نصیب ہوئى۔ اُس کے سربراہ، کیوموری نے کیوتو کی جانب پیش قدمی کی اور بعد میں اپنی بیٹی کی شادی شاہی خاندان کے ایک شہزادے سے کرائى۔ کیوموری کے مخالفین کو بے دردی سے قتل کیا گیا اور اُن کی جائدادیں ضبط کرلی گئیں تاہم میناموتو، موجودہ ٹوکیو کے مغرب میں واقع زرخیز علاقے کانتو کی جانب بچ نکلا۔ جو اُس وقت کیوتو کی مرکزی حکومت سے خاصا دور علاقہ تھا اور وہ اُس پر مضبوط کنٹرول نہ رکھ سکا۔ تاریخ دان، طائرہ کی دار الحکومت کی جانب پیش رفت کو اُس کے زوال کا سبب گردانتے ہیں اور اِسے انتہائى مہلک غلطی تصور کرتے ہیں کیونکہ وہ کیوتو کے علامتی جاہ و جلال میں کھوگئے تھے۔ دوسری جانب میناموتو نے ایک بار پھر اپنی طاقت حاصل کرنا شروع کردی۔ سنہ 1180ء میں اُن کی فوجوں نے جنوب مغرب کی جانب پیش قدمی کی اور یکے بعد دیگرے فتوحات حاصل کیں اور یوں کرتے کرتے سنہ 1185کی ایک بحری جنگ میں طائرہ قبیلے کو مکمل شکست ہوئى۔

کاما کورا کا دور

[ترمیم]

اپنے آخری حریف کے خاتمے کے بعد، میناموتو قبیلے کے اُس وقت کے سربراہ یوری تومو نے کاماکورا میں اپنا فوجی اڈا قائم کرتے ہوئے ایک جاگیردارانہ عسکری آمریت کی بنیاد ڈالی۔ کاماکورا، سابق دار الحکومت کیوتو کے مشرق میں 300 میل کے فاصلے پر واقع ہے۔ اِس حکومت کو باکوفو کہتے تھے۔ سنہ 1192ء میں شہنشاہِ جاپان نے یوری موتو کو شوگن یعنی فوج کے سربراہ کا خطاب دیا جس نے اپنے اقتدار کے دوران میں صوبوں کو نیم خود مختاری دی۔ اُس وقت کے شہنشاہ کا عمل دخل صرف دربار کی حد تک تھا جبکہ فوجداری، عسکری اورعدالتی امور پرگرفت شوگن کی ہوا کرتی تھی۔ گو کہ اُس کی حکومت قومی سطح کی نہیں تھی لیکن وہ ایک بڑے علاقے پر قابض رہا اور حقیقی اختیارات اُسی کے پاس تھے۔ اُس نے مرکزی اور مغربی جاپان میں واقع طائرہ قبیلے کی جائیدادوں پر قبضہ کر لیا۔ تاہم وہ شمال میں فوجیوارہ اور مغربی حصے کو فوجی کنٹرول میں لانے میں ناکام رہا۔ اگرچہ یوری موتو نے کسی حد تک ایک مضبوط حکومت قائم کرلی تھی لیکن پھر بھی اُس پر اپنے قریبی رشتہ داروں اور بھائى کی جانب سے اقتدار سے بیدخلی کا خوف ہر وقت چھایا رہتا تھا۔ وہ جاسوسوں سے بچنے اور کسی بھی بے یقینی کا مقابلہ کرنے کے لیے ہر وقت تیار رہتا تھا۔ اُس نے جو نظام اپنایا تھا اُس سے وہ اور اُس کا اقتدار تو محفوظ رہا لیکن وہ اپنا ایک اچھا جانشین تیار نہ کرسکا اور سنہ 1199ء میں اچانک انتقال کے بعد اُس کے بیٹے یوری نے شوگن کا خطاب اور اپنے میناموتو قبیلے کی سربراہی حاصل کی۔ لیکن اُس میں صلاحیتوں کی کمی تھی اور وہ مشرق میں آباد بوشی خاندانوں کو کنٹرول کرنے میں ناکام رہا۔ 13 ویں صدی کے اوائل میں اُسکے ننھیال کا اثر بڑہنے لگا اور اُس کی والدہ ماساکو نے اپنے خاندانی قبیلے ہوجو کے لیے شوگن کے خطاب کا دعویٰ کر دیا۔ سنہ 1221ء میں کیوتو اور کاماکورا کے مابین جنگ لڑی گئى جس میں ہوجو کی فوجوں نے باآسانی فتح پائى اور شاہی دربار کو براہ راست باکوفو کے کنٹرول میں لے لیا۔ اب انھیں پہلے کی نسبت زیادہ اختیارات ملے اور شاہی دربار کو ہر کام کی کامورا کی حکومت کی جانب سے منظوری ضروری قراردى گئی۔ کاماکورا کے دور کو خوش حالی اور ترقی کا دور کہاجاتا ہے۔ چین کے ساتھ ساڑھے تین سو سال کے وقفے کے بعد تجارت شروع ہوئى۔ کیوتو اور کاماکورا کے بیچ میں تجارت و کاروبار کو فروغ دیا گیا۔ عسکری بہادری کے بارے میں مصوری اور داستان گوئى کی ثقافت ملک بھر میں مشہور ہوئى۔ لیکن مذہبی لحاظ سے کئى پیچیدگیاں پیدا ہوئیں۔ بھارت اور چین کی طرح جاپان میں بھی نظریات کے حوالے سے بُدھ ازم کے مختلف مسلک یا فرقے معرضِ وجود میں آئے۔ جاپان میں بُدھ ازم کے اُس فرقے کو قبول کیا گیا جس کا آغاز چین سے ہوا تھا، جس میں سب سے مشہور زین ہے۔ بعد میں جاپانیوں نے اپنے مسلک بھی بنائے جِس میں مشہور جودو تھا ۔ دوسری جانب، باکوفو کے چین اور کوریا کے ساتھ باہمی تعلقات کافی کمزور تھے اور روابط کچھ زیادہ نہ تھے۔ اگرچہ جنوبی چین کے ساتھ کسی حد تجارتی روابط تھے لیکن جاپانی بحری قزاقوں کی وجہ سے کھلے سمندر پُرخطر تھے۔ اُسی دور میں یوریشیا کے زیادہ تر علاقے پر منگولوں کی حکمرانی تھی۔ سنہ1286 میں یہ خبریں منظر عام ہونے لگیں کہ چین پر بھی منگول قابض ہو چکے ہیں ۔ چنگیز خان کے پوتے قُبلائى خان نے خراج وصول کرنے کے لیے شاہِ جاپان کو ایک مراسلہ بھیجا اور کہا کہ اگر سلطنتِ یوآن کو خراج پیش نہیں کیا گیا تو پھر انتقامی کاروائى کے لیے تیار ہوجاؤ۔ کاماکورا کی حکومت نے جواب نہیں دیا لیکن کیوشو علاقے کے قریبی ساحلی علاقوں پر دفاعی اقدامات شروع کردیے گئے۔ مقامی جنگجؤوں کو چوکس کر دیا گیا۔ کوریا میں موجود جاسوسوں نے منگولوں کی فوجی سرگرمیوں پر نظر رکھنی شروع کردی۔ بالاخر جس حملے کا خطرہ تھا وہ سنہ 1274ء میں ہو گیا۔ کوریا کے بنائے ہوئے تین سو بڑے بحری جہازوں اور چار سو سے پانچ سو تک چھوٹی کشتیوں پر سوار پندرہ ہزار منگول اور چینی سپاہی اور آٹھ ہزار کوریائى جنگجو حملہ آور ہوئے۔ سمورائی چونکہ مقامی علاقے کی کیفیت سے آگاہ تھے اس لیے انھوں نے ابتدا میں سخت مزاحمت کی لیکن بازی پھر بھی منگولوں کے حق میں پلٹی۔ جس رات انھیں مکمل فتح نصیب ہونے والی تھی اُسی رات سمندر بپھر گیا اورتند و تیز موجوں نے منگولوں کی کشتیوں کو تہس نہس کر دیا اور یوں اُن کی کمر ٹوٹ گئى۔ حملہ آور منگول تو بے مراد ہوکر واپس لوٹے، لیکن کاماکورا شوگن کو پھر بھی فکر لاحق تھی کہ منگول دوبار حملہ کرسکتے ہیں، لہذا، اِس خطرے کے پیش نظر دفاعی امور پر زیادہ توجہ دی جانے لگی۔ کیوشو علاقے کے سمورائی کو بہتر انداز میں منظم کیا جانے لگا۔ قَلعے اور پتھروں کی دیواریں تعمیر کی جانے لگیں۔ اُن تمام علاقوں پر خصوصی توجہ دی گئى جہاں سے حملہ آوروں کے داخل ہونے کا امکان ہو سکتا تھا۔ مذہبی عبادات بڑھا دی گئیں۔ جن سمورائی نے منگول جارحیت کا دلیری سے مقابلہ کیا تھا انھیں انعامات سے نوازا گیا۔ اگرچہ قُبلائى خان پہلی یلغار کی ناکامی پر تھک گیا تھا لیکن منگولوں نے اپنے مشن سے پیچھے ہٹنے کا ابھی پوری طرح فیصلہ نہیں کیا تھا اور سنہ 1281ء کے موسم بہار میں چینی بحری بیڑے کے ذریعے حملہ کیا گیا جس میں کوریائى بیڑا بھی شامل تھا۔ کئى علاقوں پر خونریز جھڑپیں ہوئیں جِسے جنگ کوئن کہتے ہیں۔ منگول افواج کو واپس اپنے بحری جہازوں کی جانب دھکیل دیا گیا۔ اِسی دوران میں کیوشو کے ساحل پر ایک خوفناک سمندری طوفان اُمڈ آیا جس نے حملہ آور فوجوں کے چھکے چھڑا دیے اور بحری بیڑا اور کشتیاں تِتربِتر ہوگئیں۔ منگول سات سال کی مدت کے دوران میں اپنی منصوبہ بندیوں اور حملوں میں ناکامی کے بعد واپس ہوئے۔ یہ اُن کی تاریخ کی بدترین شکست تھی۔ جاپانیوں کے عقیدے کے مطابق کامی کازے یعنی مقدس طوفان نے اُن کی سرزمین کو بچا لیا۔ کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ کیوشو کے علاقے میں مضبوط دفاعی حکمت عملی نے بھی منگولوں کو فتح حاصل کرنے سے دور رکھا۔ منگولوں کے ساتھ اِس جنگ نے جاپان کی معیشت پر منفی اثر ڈالا کیونکہ یہ دفاعی جنگ تھی اور اِس کے بدلے میں کچھ نہ ملا۔ جاگیر داروں نے ٹیکس دینے سے انکار کر دیا جس سے حکومت کی آمدنیوں میں بڑی کمی آئى اور غربت بڑھ گئى تھی یوں کاماکورا کی حکومت لڑکھڑانے لگی اور روز بروز کمزور ہوتی چلی گئى۔ انہی بدتر حالات میں سنہ 1318ء میں ایک اور لیڈر، گودائگوتِننو نے جاپان کے 96 ویں شہنشاہ کی حثیت سے تاج و تخت سنبھالا۔ سنہ1333ء میں ھوجو نے کاماکورا سے اپنے ایک جرنیل آشی کاگاتاکوجی، کو کیوتو پر حملہ کرنے کے لیے بھیجا لیکن اِسی دوران میں اُس کے ذہن میں فتور آیا اوراُس نے بے وفائى کرتے ہوئے شہنشاہ کی حمایت کا اعلان کر دیا اور واپس کاماکورا کی جانب لوٹا آیا۔ کئى جاگیرداروں اور سمورائی جنگجؤوں نے اِس جرنیل کی تائید کی اور انھوں نے حملہ کرکے اپنے آقا کی حکومت اور فوجی دار الحکومت کو تباہ و برباد کر دیا۔ شہنشاہ گو دائگو ایک مضبوط آمریت کی بنیاد رکھتے ہوئے مشرق کا ایک بڑا حکمران بننا چاہتے تھے۔ اُن کی خواہش تھی کہ چین کی طرح کی بادشاہت قائم کریں۔ سنہ1335ء میں شہنشاہ گودائگو اور جرنیل آشی کے مابین اُس وقت اختلافات پیدا ہوئے جب وہ ناکاسیندائى باغیوں کو کچلنے کے لیے بغیر شاہی فرمان کے مشرقی جاپان روانہ ہوا۔ شاہی دربار نے اُسے نافرمانی کی سزا دینے کے لیے لشکر بھیجا لیکن آشی کاگا تاکوجی نے اُسے شکست دی۔ شہنشاہ نے مزید دو کمانڈروں کی قیادت میں فوج بھیجی اور بالاخر آشی کو شکست ہوئى اور وہ کیوشو بھاگ نکلا۔ لیکن اُس سے زیادہ دیر شکست برداشت نہیں ہوئى اور دوبار اپنی فوج کی صف بندی کرکے دار الحکومت کیوتو پر حملہ آور ہوا۔ شاہی فوج کو شکست ہوئى اور شہنشاہ گو دائگو بھاگ نکلا۔ آشی نے قابل بھروسا ایک کٹھ پُتلی شہنشہاہ مقرر کیا اور خود شوگن یعنی سمورائی کے انچارج کا خطاب حاصل کیا۔ اب آشی کاگا تاکوجی، اپنے ہمنواؤں اور وفاداروں سمیت دار الحکومت کیوتو میں براجمان تھا۔ یہاں کی عیاش زندگی نے اُسے کمزور کر دیا اور اُس کی گرفت دیگر علاقوں پر کمزور پڑ گئى تھی۔ بلکہ تاریخ بتاتی ہے کہ اِس بغاوت کے تقریباً 270 سال تک، جاپان میں نہ تو کوئى ایسا شہنشاہ اور نہ ہی ایسا شوگن پیدا ہوا جس کا پورے ملک پر کنٹرول ہو۔ صرف دار الحکومت کیوتو کے حدود تک اُن کے اقتداراعلیٰ کا اثر و رسوخ رہا۔ ملک کے دیگر علاقوں میں مقامی جاگیرداروں جنہیں دائیمو کہا جاتا تھا، کا قبضہ رہا۔ وہ اپنے علاقے کے قوانین خود مرتب کرتے تھے اور ہمسایوں کے خلاف جنگ و امن کے فیصلوں میں خود مختار تھے۔ وہ مرکزی حکومت کو ٹیکس کی ادائیگی بھی نہیں کرتے تھے۔ چودھویں صدی میں تو یہ حالت اِس نہج پر جا پہنچی کہ دو حریف شہنشاہوں میں رسہ کشی ہوتی رہی۔ مقامی جاگیرداروں کی مرضی پر منحصر تھا کہ وہ کس وقت کونسے شہنشاہ کی حمایت کا اعلان کرتے ہیں۔ اِسی میں موروماچی کا دور بھی رہا جس دوران میں چھوٹی چھوٹی ریاستوں کی جنگیں جاری رہیں۔ پندرھویں اور سولہویں صدی کو انتہائى خون خرابے والا خانہ جنگی کا دور کہا جاتا ہے۔ اب وفاداری نام کی کوئى چیز نہیں رہی تھی اور جاسوسی، دھوکا، بغاوت اور بے دردی سے قتل و غارت کرنا زیادہ عام تھا۔ ایسے وقت میں جب جاپان اندرونی خانہ جنگی کا شکار تھا یورپی ممالک نے دور اُفتادہ خطوں میں اپنی مہم جوئى شروع کی ہوئى تھی۔ مارکوپولو 200 سال قبل کئى علاقوں کو دیکھ چکا تھا یا کئى کا ذکر سن چکا تھا۔ جب کرسٹوفر کولمبس نے کیوبا دریافت کیا تو اُس وقت اُس نے یہ سوچا کہ شاید یہ جاپان ہے۔ سنہ1543ء میں پُرتگال کے تین سوداگر ایک چینی بحری جہاز پر سوار کیوشو کے جنوب میں واقع ایک چھوٹے سے جزیرے تانیگاشیما پہنچے۔ وہ اپنے ساتھ بارودی بندوقیں لے کر آئے تھے جو جاپانیوں نے پہلی بار دیکھیں اور ہاتھوں ہاتھ خرید لیں۔ یہ جنگ کی یقینی کامیابی کا ایک بڑا ذریعہ ثابت ہوسکنے والا جدید ہتھیار تھا۔ پرتگالیوں کو بھارت اور جنوب مشرقی ایشیا میں تیز گرمی کی نسبت جاپان زیادہ خوشگوار ملک محسوس ہوا۔ انھیں چین کی سرزمین بھی پسند تھی لیکن چینی لوگوں نے یورپ کے لوگوں کے ساتھ بیماروں جیسا سلوک کرتے ہوئے انھیں صرف جنوبی بندرگاہ تک ہی محدود رکھا۔ اُن کے خیال میں جاپان میں جاگیردارانہ نظام اور لوگوں کی دوست مزاج طبعیت کی وجہ سے انھیں سمجھنا آسان تھا۔ سنہ1549ء میں سپین سے پہلا عیسائى مبلغ جاپان کی سرزمین پر پہنچا اور ابتدا ہی میں کئى لوگوں نے مسیحیت قبول کرلی۔ یورپی سوداگروں اور عیسائى مبلغین کو اُس وقت مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا تھا جب مقامی عمائدین ایک دوسرے کے خلاف لڑتے تھے۔ غیر مُلکی مبلغوں کے جانے کی صورت میں مقامی عیسائى دعوتِ تبلیغ کا کام کرتے تھے۔ سنہ1569ء میں شمال مغربی کیوشو کے ایک جاگیردار نے اپنے پندرہ سو نوکروں سمیت مسیحیت قبول کی اور غصہ میں آکر بدھ مت کے ایک مقامی مندر کو آگ لگادی اور اِسی مقام پر چرچ تعمیر کیا۔ جاگیردار کا یہ شہر ناگاساکی بعد میں یورپی تاجروں اور مسیحیوں کے لیے ایک نمایاں مقام بنا۔ جاپانی لوگ سوائے آئنو قبیلے کے تمام ایک نسل، ایک زبان اور ایک ثقافت والے ہیں لہذا اگر کوئى رہنماء اِن کو متحد کرنے کی سنجیدہ کوشش کرتا تو یہ اتنا کٹھن ہدف نہ ہوتا۔ سولہویں صدی میں تین نامور رہنماء گذرے ہیں جنھوں نے ملکی اتحاد میں اہم کردار ادا کیا۔ اِن میں اُدانوبوناگا، تویوتومی اور توکُوگاوا ائیاسو شامل ہیں۔ یہاں سے ایک سیاسی قیادت تلے جاپان کی عسکری وحدت اور استحکام کا عمل شروع ہوا۔ پہلے اُدانو بوناگا نے کئى مہم چلائیں جس دوران میں جاپان تقریباً متحد ہو گیا تھا اور جسے اُن کے جرنیلوں میں سے ایک جنرل تویو تومی ہیدے یوشی نے پایہ تکمیل تک پہنچایا۔ سنہ1568ء سے 1600ء تک کے دور کو آزوچی مومویاما کا دور کہتے ہیں۔ نوبوناگا، نے سنہ1568ء میں کیوتو پر قبضہ کیا اوراُس نے عسکری قیادت کے عہدے شُوگن پر ایک کٹھ پُتلی سپہ سالار مقرر کیا۔ نوبوناگا، نے اپنے مخالفین کو بُری طرح کُچل ڈالا۔ چونکہ کسی مذہبی عقیدے کے ساتھ اُن کی وابستگی نہیں تھی اس لیے بدھ مت کے بھکشو اُن کے لیے رکاوٹ ِ راہ بن رہے تھے۔ لہذا، انھوں نے ایسے عناصر کی بیخ کنی کے لیے تمام حربے استعمال کیے۔ فطری طور پر انھوں نے دشمن کو زیر کرنے کے لیے عیسائى پیروکاروں اور مبلغین کی ہمدردیاں حاصل کرنے کی کوششیں شروع کیں۔ مغربی لباس، فن مصوری اور طرزِ معاشرت کی حوصلہ افزائى کی۔ مسیحیوں کو قصبوں میں چرچ تعمیر کرنے کی اجازت دی۔ مسیحی مبلغین نے مسیحیت قبول کرنے والوں کی تعداد میں بڑا اضافہ کرنے کے لیے نوبوناگا کو بھی مسیحیت کے دائرے میں لانے کی کوشش کی مگر اُس نے مسیحیت قبول نہیں کی، تاہم عیسائى مبلغین کو وہ تمام سہولیات اور مراعات دیں جو وہ چاہتے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ جب نوبوناگا کا انتقال ہوا تو اُس وقت تک جاپان میں مسیحیوں کی تعداد ڈیڑھ لاکھ تک پہنچ چکى تھی جبکہ ملک کی کل آبادی دو کروڑ تھی۔ سنہ1580ء تک وہ وسطی ہانشو کا زیادہ تر علاقہ متحد کرچکا تھا۔ دو سال بعد 1582ء میں نوبوناگا کے ایک منصب دار نے اُسے کیوتو کے مندر میں ہلاک کر دیا لیکن یہ منصب دار اپنے آقا کی حکومت پر قبضہ نہ کرسکا کیونکہ جب یہ خبر جنرل ہیدے یوشی تک پہنچی، جو اُس وقت ایک مخالف سے مذاکرات میں مصروف تھا واپس کیوتو آیا اور قاتل کا کام تمام کر دیا۔ ہیدے یوشی مخالفین کیساتھ مذاکرات پر یقین رکھتا تھا۔ اُس نے سنہ1590ء میں آخری معرکہ فیوجی پہاڑ کے نزدیک اوداوارا کے علاقہ میں لڑا جہاں اُس نے اپنے دور کے طاقتور خاندان ھوجو کے قلعے پر قبضہ کیا۔ اب، ہیدے یوشی کو مسیحیوں کی بڑھتی طاقت کی فکر لگ گئى تھی۔ اُس نے مسیحی مبلغین کے نام ایک سوال نامہ ارسال کیا کہ ایک مرد کے لیے ایک ہی عورت سے شادی کی پابندی کیوں ہے؟ جبراً مذہب تبدیل کروانے کا کیا جواز ہے؟ بدھ مت کے پیروکاروں کو کیوں قتل کیا گیا اور اُن کی عبادت گاہوں کو تباہ کیا گیا؟ مسیحی، بھیڑ بکریوں جیسے مفید جانوروں کو کیوں کھاتے ہیں؟ سوداگر، جاپانی لوگوں کو غلام بناکر فروخت کرنے کے لیے کیوں باہر بھیجتے ہیں؟ اِس سے پہلے کہ عیسائى پادری اِن سوالات کا جواب دیتا، ہیدیوشی نے تمام عیسائى مِشنوں کو جاپان چھوڑنے کا حکم دیا۔ اُس وقت جاپان میں جنگجووں کی تعداد ضرورت سے زیادہ تھی اِس لیے ہیدی یوشی نے انھیں کام میں لاتے ہوئے کوریا، چین اور یہاں تک کہ ہندوستان اور فلپائن کو فتح کرنے کی نیت سے کوریا پر چڑھائى کی۔ سنہ1592ء میں ایک لاکھ 60 ہزار سمورائی جنگجووں نے کوریا پر حملہ کیا اور محض چھ ہفتوں میں کوریا پر قبضہ کر لیا۔ تاہم کوریا کی بحریہ نے اپنے نئے بحری جہازوں سے سمندر کے بہت سے علاقے کا موثر دفاع کیا۔ حالات کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے چین نے اپنی فوجیں کوریا بھیج دیں۔ چین کو بھی دو بار شکست کا سامنا کرنا پڑا لیکن مذاکرات نہ ہو سکے اور حالات جمود کا شکار ہو گئے۔ اِسی دوران میں سنہ1597ء میں ہیدے یوشی نے مزید ڈیڑھ لاکھ فوجیں روانہ کیں۔ اب جبکہ جنگ کا آغاز ہو گیا تھا کہ اِسی دوران میں ہیدے یوشی کی صحت خراب ہوگئى تو اُس نے پانچ رہنماؤں پر مشتمل کونسل کا اجلاس بُلایا اور اپنے پانچ سالہ بیٹے کو جانشین مقرر کرکے اِن رہنماؤں کو اقتدار سنبھالنے میں معاونت کی درخواست کی۔ شدید علالت کے باعث، ہیدے یوشی کا تین ماہ بعد 18 ستمبر 1598ء کو انتقال ہو گیا۔ اِس کے بعد سمورائی جنگجووں نے جاپان واپسی کی، لیکن اِس مہم جوئى سے جاپان، کوریا اور چین کو پہنچنے والا نقصان پہلے سے کہیں زیادہ تھا۔ پانچ سال کی عمر کا بچہ ہیدے یوری، بے اختیار تھا اور اصل طاقت دوسرے رہنماؤں کے پاس تھی۔ ہیدے یوشی کے انتقال کے بعد، توکوگاوا ائیاسو، سب سے طاقتور جاگیردار رہ گیا تھا۔ اُس کی جاگیر، ہیدیوشی کے خاندان سے بھی زیادہ تھی۔ اردگرد کے جاگیرداروں نے اُسے شکست دینے کی کوشش کی مگر سنہ1600ء کی جنگ سیکی گاہارا میں اُن سب کو شکست ہوئى۔ اور توکوگاوا ائیاسو نے ہیدے یوری کو اقتدار سے بے اختیار کر دیا اور جاگیردارانہ بنیادوں پر سخت حکومت قائم کی۔ وہ انتہائى ہوشیار، شاطر اور ظالم حکمران تصور کیا جاتا رہا ہے۔ اُس نے دار الحکومت کیوتو کی طرح کی پرسکون زندگی کو بالکل پسند نہ کیا اور دار الحکومت ایدو میں قائم کیا۔

ایڈو دور سنہ1603ء سے سنہ1868ء تک رہا۔ توکو گاوا ائیاسو، جاپان کی تاریخ کا کامیاب ترین حکمران مانا جاتا ہے۔ اُس نے غداری سے کئى جنگیں جیتی تھیں۔ اگرچہ جاپان میں ہمیشہ سے شہنشاہ، ملک کا علامتی سربراہ ہوتا تھا لیکن اصل طاقت اور اختیار شوگن یعنی فوج کے سربراہ کے پاس ہوتا تھا لیکن ائیاسو نے جاگیر داری اور شہنشاہیت دونوں کی روایات پر مبنی نظام حکومت تشکیل دیا۔ وہ ہیدے یوشی کی طرح پہلے تو مسیحیوں کے لیے دِل میں نرم گوشہ رکھتا تھا لیکن پرتگالی اور ہسپانوی سوداگر وہاں جاتے تھے جہاں کیتھولک مشنری انھیں جانے کا کہتے تھے۔ ائیاسو نے ہسپانیہ کے ساتھ تجارتی معاہدوں کے لیے مذاکرات کرنے چاہے لیکن ہسپانیہ نے جاپانی جہازوں کو فلپائن یا میکسیکو کی بندرگاہوں پر جانے کی اجازت نہیں دی۔ بعد میں ائیاسو کو معلوم ہوا کہ مسیحیوں میں ایک سے زیادہ فرقے ہیں۔ اِسی دوران میں سنہ1600ء میں ایک ولندیزی لیفدے نامی بحری جہاز جاپان کے کیوشو علاقے میں لنگر انداز ہوا۔ اب جاپانیوں کو کیتھولک مسیحیوں کے بارے میں بھی علم ہوا۔ مقامی جاگیرداروں نے ولندیزوں کا گرم جوشی سے خیر مقدم کیا۔ بعد میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جہاں بدھ ازم سے خطرہ نظر آنے لگا وہاں مسیحیوں کے بھی تیور بدلنا شروع ہوئے۔ ائیاسو نے آخر کار سنہ1612ء میں ایک حکمنامہ جاری کرتے ہوئے مسیحیت پر پابندی لگا دی۔ تمام مسیحی مبلغوں کو فوری طور پر ملک چھوڑنے اور تمام جاپانی مسیحیوں کو بدھ مت قبول کرنے کا حکم دیا۔ کئى نے ملک چھوڑ دیا اور کئى روپوش ہو گئے۔ بہت سے جاپانی مسیحیوں کو تہ و تیغ کیا گیا۔ مغربی ممالک کے ساتھ روابط میں کمی لائى گئى اور جاپانیوں کے غیر ممالک جانے پر پابندی لگادی۔ نجی طور پر ایسے بحری جہازوں کی تیاری پر پابندی لگائى گئى جو دور سمندر تک کا سفر کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ سنہ1637ء میں ناگاساکی کے قریب ہزاروں مسیحی مزارعوں نے خونریز بغاوت کی کیونکہ پرتگال نے اِس بغاوت کی کھلم کھلا حمایت کی۔ اِس کے آئندہ چار سالوں میں تمام یورپیوں کو ملک سے بے دخل کر دیا گیا، ماسوائے کچھ ولندیزی سوداگروں کے جنہیں ناگاساکی کی بندر گاہ تک محدود رکھا گیا۔ ایک ولندیزی بحری جہاز کو سال میں ایک بار جاپان آنے کی اجازت دی گئى۔ اور جاپانی دانشور، ولندیزیوں کے علم و دانش یعنی حساب، سائنس اور طب میں ہونے والی جدید ترقی کے بارے میں علم حاصل کرتے تھے۔ جاپان کی دُنیا سے تنہائى کا یہ عمل آئندہ دو صدیوں تک چلتا رہا۔ توکو گاوا ائیاسو، نے سخت گیر نظام قائم کیا۔ عوامی حرکت کو محدود رکھا اور ہر کسی کو ایک خاص کام و مقام تفویض کیا اور مزارعوں سے سر اٹھانے کے ہمت چھین لی گئى۔ چھوٹے جاگیرداروں کو شادی کرنے، جانشین منتخب کرنے یا اپنا نجی قلعہ مرمت یا تعمیر کرنے کے لیے حکومتی اجازت نامہ ضروری تھا۔ مخالف جاگیر داروں کو سڑکوں، مندروں اور قلعوں کی تعمیر و مرمت کی ذمہ داری دی گئى۔ انھیں ہر دو سال میں ایک بار دار الحکومت ایدو آنے کا پابند کیا۔ اُن کے خاندانوں کو ایک طرح سے یرغمال بنایا کیونکہ انھیں سوائے اپنے علاقے کے کہیں دوسری جگہ رہنے کی اجازت نہیں تھی۔ دار الحکومت ایدو کا علاقہ تیزی سے پھیلتا گیا اور اِس کی آبادی پانچ لاکھ تک جا پہنچی۔ دار الحکومت کی جانب آنے والے تمام راستوں پر نگران چوکیاں تعمیر کی گئیں اور دار الحکومت کی جانب کسی بھی قِسم کے ہتھیاروں کی سمگلنگ پر کڑی نظر رکھی جانے لگی تاکہ کسی بھی قِسم کے بغاوت کا امکان نہ رہے۔ سمورائی کی عزت کی جاتی تھی لیکن اب وہ معاشرے میں زیادہ ضروری نہیں سمجھے جاتے تھے، جس کی وجہ سے بہت سے سمورائی، زرداروں اور سوداگروں سے قرض لے کر زندگی گزارنے لگے۔ نئى سڑکوں اور مواصلات کے بہتر انتظام سے تجارت پیشہ افراد کو فوائد پہنچنے لگے۔ کاروبار اور تجارت بڑھنے سے سوداگر طبقہ ترقی کرنے لگا۔ فنِ تعمیر میں جِدت آنے لگی اور شوخ رنگوں کا استعمال بڑھ گیا۔ قلعوں کے اندر لکڑی کے نقش و نگار کیے گئے اور سلائڈنگ دروازے اور فولڈ ہونے والے سکرین لگائے گئے اور دیواروں کو شوخ رنگوں سے پینٹ کیا گیا۔ ائیاسو نے اپنے دربار میں کنفیوشن ازم کو دوبارہ زندہ کیا۔ اگرچہ ہنرمندوں اور کاروباری طبقے کے پاس پیسہ بہت آ گیا تھا تاہم، معاشرے میں اُن کا مقام کسانوں سے نیچے رکھا گیا کیونکہ زراعت کو اب بھی اہمیت کا حامل سمجھا جاتا تھا۔ اگرچہ کسی وقت میں کسانوں کو طاقت کے بل بوتے پر کچل دیا گیا تھا لیکن دولت، تعلیم، اقتصادی ترقی اور بڑھتی ہوئى شہری آبادی سے نئى سماجی اور سیاسی تبدیلیاں رونما ہونے لگی تھیں اور کاروباری طبقے کے ساتھ ساتھ دانشوروں کا بھی ایک مضبوط کردار سامنے آنے لگا۔ کبھی معاشرے کا کمزور طبقہ اب سمورائی سے زیادہ امیر ہو گیا تھا۔ اُنیسویں صدی تک شوگن کا اختیار اور طاقت خاصی کمزور ہو گئی تھی۔ رُخ بدلتی شہری زندگی اور مغربی ممالک سے ملنے والی نت نئى معلومات نے روایتی معاشرے کو چلتا کر دیا۔

میجی دور

[ترمیم]

میجی دور اور مغرب سے رابطے جاپان کی تنہائى کی پالیسی تقریباً 200 سال تک جاری رہی ۔ تاریخی ریکارڈ کے مطابق، سنہ 1844ء میں ہالینڈ کے حکمرانِ وقت ویلیم دوم نے جاپان کو پیغام ارسال کیا کہ وہ اپنے بند دروازے بیرونی دُنیا کے لیے کھول دے ، تاہم اُس وقت کے عسکری سربراہ شوگن توکوگاوا نے اِس مطالبے کو مسترد کیا ۔ تقریباً دس سال بعد سنہ 1853ء میں بھاپ سے چلنے والے چار امریکی بحری جہاز ، کموڈور میتھیو پیری کی قیادت میں ایدو کے قریب لنگرانداز ہوئے ۔ جاپان نے اِن جہازوں کو وہاں سے نکل جانے کا حکم دیا، لیکن پیری نے انکار کیا کہ وہ اُس وقت تک واپس نہیں ہوں گے، جب تک وہ شہنشاہِ جاپان کو امریکی صدر کی جانب سے بھیجا گیا مراسلہ نہ پہنچائیں ۔ اِس مراسلے میں دوستی ، تجارت، کوئلے کی فراہمی وغیرہ جیسے نیک خواہشات کا اظہار کیا گیا تھا ۔ امریکی کموڈور نے مراسلہ دینے کے بعد کہا کہ وہ اِس کا جواب وصول کرنے کے لیے ایک سال بعد دوبارہ دورۀ کریں گے ۔ جاپانیوں نے اُس سال کافی غور و خوص کیا کہ وہ باقی دُنیا سے کتنا پیچھے ہیں ۔ اگلے سال 31 مارچ سنہ 1854ء کو کاناگاوا کنونشن کے موقع پر جب میتھیو پیری دوبارہ آیا، تو اُس وقت وہ سات بحری جہازوں کی قیادت کررہا تھا ۔ طرفین کے مابین چھ ہفتوں تک مذاکرات ہوتے رہے اور بالاخر ایک معاہدہِ امن و دوستی دستخط کیا گیا اور یوں سفارتی تعلقات قائم کیے گئے ۔ یہ معاہدہ منظر عام ہونے پر برطانوی، روسی اور ولندیزی بھی مطالبہ کرنے لگے کہ اُن کے ساتھ بھی ایسا ہی معاہدہ کیا جائے ۔ 29 جولائى 1858ء کو امریکا کے ساتھ ہیریس ٹریٹی نامی معاہدہ دستخط ہوا، جس میں تجارت کے حوالے سے کئى امور پر اتفاق کیا گیا ۔ تجارت کے پہلے معاہدوں سے جاپان کواپنے غیر مُلکی تجارت اور محصولات کی پالیسوں سے دستبردار ہونا پڑا ، جس کی وجہ سے جاپان کی تجارت عدم توازن کا شکار ہوئى اور حالات مغرب کے حق میں ہوئے اور مزید یہ کہ اب غیر مُلکیوں کو علاقائى فوائد کے ساتھ جاپان میں رہنے کا حق حاصل ہوا اور انھیں جاپانی قوانین سے مستثنیٰ قرار دیا گیا ۔ چونکہ سامراجی قوتیں ایشیا کے زیادہ تر حصے پر اپنے پنجے گاڑ چکے تھے، اِیسے میں جاپان کا اُن کے نرغے میں آنا فطری بات تھی ۔ توکوگاوا شوگن کا عائد کردہ نظام اب وقت کے تقاضوں کے مطابق نہیں رہا تھا اور ایک فرسودہ نظام کی شکل اختیار کرکے روبہ زوال ہوا، کیونکہ اِسے عوامی پذیرائى بھی نہیں مل رھی تھی ۔ کچھ جاپانی دانشور مشرقی اخلاقیات اور مغربی سائنس کے امتزاج سے جِدت لانے کی وکالت کرنے لگے ۔ سمورائے اِس قِسم کے کسی بھی نظریے کی مخالفت کرنے لگے اور انھوں نے ، مغربی لوگوں اور مغرب نواز جاپانیوں پر حملے شروع کردیے ۔ شوگن کی قوت بھی لڑکھڑانے لگی اور اردگرد کے جاگیرداروں سے بغاوت کی بُو آنے لگی ۔ اِس دوران میں کچھ علاقائى جاگیرداروں نے مغربی جہازوں پر حملے کیے ۔ جواباً مغربی قوتوں نے توپ خانے سے گولہ باری کی اور یوں جاپانی بحری جہازوں اور جنگی صلاحیت کو ختم کرتے ہوئے برطانیہ کی پہلی فوج 1863ء میں ساتسوما کے علاقائى دار الحکومت کاگوشیما پر اُتری ۔ ایک سال بعد یہی سلوک برطانوی ، فرانسیسی ، ولندیزی اور امریکی ٹاسک فورس نے چوشو بندرگاہ پر کیا ۔ شکست کے بعد سیتسوما اور چوشو کے علاقائى سرداروں نے مغربی قوتوں کے ساتھ دوستانہ روابط بڑھائے ۔ سیتسوما نے اپنی جدید بحریہ تشکیل دی ، جبکہ چوشو نے اپنے کسانوں کو مغربی فوج کی طرز پر تربیت دی اور امریکی خانہ جنگی میں بچ جانے والا اسلحہ خرید لیا ۔ اِن دونوں قوتوں نے سنہ 1866ء میں ایک اچھی فوج کی شکل اختیار کرلی ۔ اِس فوج نے شوگن کی روایتی فوج کا بڑے بھرپور انداز میں مقابلہ کیا اور اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ۔ سنہ 1867ء میں ایک پندرہ سالہ شہنشاہ موتسوہیتو نے اقتدار سنبھالا اور انھوں نے سیتسوما اور چوشو سمیت جدید معاشرے کے خواہاں سرداروں کی حمایت کی اور نئے شوگن کے خلاف ایک اتحاد تشکیل دیا۔ اِس اتحاد کے تحت ، شوگن سے مستعفی ہونے اور ایدو کے شمال میں واقع اُن کی جائداد کی ضبطی کا مطالبہ کیا گیا ۔ انکار پر دونوں اطراف سے حملے شروع ہو گئے اور جاگیرداروں کی فوجوں نے کیوتو پر حملہ کرکے قبضہ کر لیا ۔ توکوگاوا کے کئى وفادار بھاگ نکلے اور شوگن کو بے دخل کر دیا گیا ۔ برطانوی پیادہ فوج نے شہنشاہِ وقت کو اپنی حفاظت میں لیکرایدو میں واقع شوگن کے قَلعے میں لے گئی ۔

شہنشاہ موتسوہیتو کے دور کو دورِمیجی یعنی روشن خیال دور کہا جاتا ہے ۔ اُن کا دور 45 سالوں پر محیط ہے ، جو سنہ 1867ء سے 1912ء تک رہا ہے ۔ اِس دور میں جاپان نے ڈرامائى ترقی کی ۔ جاگیرداری پر قائم صدیوں پرانے نظام کو بدلتے ہوئے جاپان کو ایک عالمی طاقت بنا دیا، جو غیر مغربی ثقافت پر مبنی جدید ترقی کی ایک کامیاب مثال بنا ۔ غیر مُلکی ماہرین کی خدمات حاصل کی گئیں اور طالب علموں کو اعلیٰ تعلیم کے لیے بیرونِ مُلک بھیجا گیا۔ اصلاحات کے تحت ، سنہ 1871ء میں جاگیریں ختم کرکے ، پرگنہ اور تعلقہ یعنی جاگیروں کو ریاستی ملکیت گردانا گیا ۔ سمورائے کی پنشن ختم کرکے اُن کے روایتی لباس پہننے اور تلوار لے کر چلنے کو ممنوع قرار دیا گیا ۔ تعلیم کو بڑی اہمیت دی گئى اور نئے اسکول تعمیر کیے گئے ۔ رہنمائى کے لیے کئى مغربی اداروں کا سہارا لیا گیا اور فوج کو جدید خطوط پر استوار کیا گیا اور جن سمورائے نے بغاوت کی کوشش کی، انھیں فوج سے شکست دی گئى ۔ فوجی تربیت کے لیے فرانسیسی مشیر مقرر کیے گئے ۔ قانونی نظام ، پارلیمانی ادارے ، آئین اور حکومت سازی کے لیے جرمنی ، فرانس اور امریکا سے استفادہ کیا گیا اور یہاں تک کہ جاگیرداری اور شوگن کے خاتمے کے لیے مغربی طاقتوں سے براہِ راست مدد لی گئى ۔ اگرچہ جاپان وہ پہلا ایشیائى مُلک تھا، جس نے مغربی طرز پر جدید معاشرہ قائم کیا تھا، تاہم ، وہ 19 ویں صدی کے جرمنی کی طرح بیک وقت قدامت پسند بھی تھا ۔ مثال کے طور پر تعلیم پر حکومت کو مکمل کنٹرول تھا اور اِسے ریاست کے لیے اطاعت شعار ملازمین تیار کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا ۔ پریس کو سختی سے کنٹرول کیا گیا ۔ فوج کو بغیر کسی پس وپیش کے شہنشاہ کی اطاعت کرنی ہوتی تھی ۔ سپاہیوں کو یہی تربیت دی جاتی تھی کہ میدانِ جنگ میں موت ، سب سے مقدس ہے ۔ شِنتواِزم کو بدھ اِزم اور مسیحیت پر فوقیت دی گئى کیونکہ یہ نہ صرف اصل جاپانی عقائد پر مبنی تھا، بلکہ اِس میں شہنشاہ کی اطاعت پر زور دیا گیا تھا ۔

جاپان کی سمندر پار جنگیں

[ترمیم]

طاقتور فوج کے قیام کے بعد، مغربی سامراجیت کی طرح جاپان میں بھی توسیع پسندی کا رجحان پھر سے پروان چڑھنے لگا۔ جاپانی رہنماؤں کو جزیرہ نما کوریا کھٹکتا رہتا تھا۔ وہ چاہتے تھے کہ یا تو کوریا مکمل طور ایک آزاد ملک بن جائے تاکہ کوئى غیر ملکی طاقت کوریا کے ذریعے جاپان پر حملہ نہ کرسکے اور یا پھر کوریا، جاپان کے زیر تسلط آجائے۔ اِس کے لیے ضروری تھا کہ جاپانی سرحدوں کو اصل حدود سے کہیں دور تک پھیلا دیا جائے تاکہ کسی بھی قِسم کے بیرونی حملوں کا باہر مقابلہ کیا جاسکے اوریوں مُلکی معیشت کی ترقی میں کوئى روکاوٹ نہ آئے۔ اِس مقصد کے حصول کے لیے پہلا ہدف کوریا بنا۔ یہ بھی کہاجاتا ہے کہ چونکہ کوریا میں کوئلے اور لوہے کے ذخائر تھے اِس لیے جاپان چاہتا تھا کہ وہ اپنی صنعتی ترقی کے لیے اِن وسائل سے کسی طرح سے استفادہ کرسکے۔ کوریا اور منچوریا میں فوجی کاروائى کے سبب ہی جاپان۔چین پہلی جنگ یکم اگست سنہ 1894ء سے17 اپریل 1895ء تک، چین کے چِن عہدِ حکومت اور میجی جاپان کے مابین لڑی گئى۔ اُس دور میں کوریا ، چین کے زیر اثر تھا ۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مختلف سوچ اُبھرنے لگی۔ کچھ کے خیال میں روایتی انداز سے چین کے ساتھ منسلک رہا جائے، جبکہ کچھ کا موقِف تھا کہ جاپان اور مغربی ممالک سے تعلق قائم کیا جائے ۔ چِن دور حکومت میں، چین کی سلطنتِ برطانیہ کے خلاف لڑی جانے والی جنگِ افیون 1839ء–1842ء اور 1856ء–1860ء اور فرانس کے خلاف جنگ اگست 1884ء سے اپریل 1885ء تک سے، چین کمزور ہو گیا تھا اور مغربی ممالک کی جانب سے سیاسی مداخلت کو نہ روکا جا سکا۔ شاید جاپان کے لیے یہ بہتر موقع تھا کہ وہ جزیرنما کوریا پر چینی اثر و رسوخ کو چیلنج کر دے۔ سنہ 1882ء میں کوریا میں قحط آیا اور غذائى اجناس کی قلت پیدا ہوئى، حکومت دیوالیہ ہوگئى، قرضوں کی ادائیگی مشکل ہوئى اور وسائل کی عدم دستیابی کی وجہ سے فوج ڈانواڈول ہونے لگی۔ اِسی اثناء میں سئیول میں فوجی بغاوت بھڑک اُٹھی، فسادات پُھوٹ پڑے، گوداموں پر حملے کیے گئے اور اگلی صبح مظاہرین نے شاہی محل کو نشانہ بنایا۔ اُس کے بعد ہجوم نے جاپانی سفارت کاروں پر حملہ کیا، تاہم کچھ سفارت کار، سروے کرنے والے فلائنگ فش نامی ایک برطانوی بحری جہاز کے ذریعے نکلنے میں کامیاب ہوئے۔ جوابی اقدام کے طور پر، جاپان نے چار جنگی جہاز اور ایک بٹالین فوج روانہ کی تاکہ جاپانی مفادات کا تحفظ کیا جا سکے اور تاوان طلب کیا جائے۔ جاپانی حملے کو روکنے کے لیے چین نے بھی 4500 فوجی روانہ کیے۔ تاہم کشیدگی کا خاتمہ اُس وقت ہوا، جب ایک معاہدے کے تحت سازشیوں کو سزا اور مرنے والے جاپانیوں کے خاندانوں کو 500٫000 ین دینے پر اتفاق ہوا۔ جاپان سے باقاعدہ معافی مانگی گئى اور اُسے یہ اختیارحاصل ہوا کہ وہ سئیول میں اپنے سفارتی عملے کے تحفظ کے لیے حفاظتی چوکیاں قائم کرے اور اپنے سیکورٹی گارڈز متعین کرے۔ دو سال بعد، جاپان کے حمایتی اصلاح پسندوں نے ایک خونی بغاوت میں اقتدار پر قبضے کی کوشش کی، لیکن چینی فوج کے جنرل یوآن شیکائی کی مدد سے مخالف گروپ نے خون خرابا کرتے ہوئے اصلاح پسندوں کو ناکام بنا دیا۔ اِس خونی بغاوت میں کئى لوگ زندگی گنوا بیٹھے۔ جاپان کو یہ چینی مداخلت ناگوار گذری، کیونکہ یہ چین کی جانب سے اُن کے اثر کو پنپنے سے روکنے کی ایک اور کوشش تصورکی گئى۔ اِسی جنرل پر یہ الزام بھی تھا کہ اُس کے ایجنٹوں نے 28 مارچ 1894 کو شنگھائى میں جاپان نواز کوریائى انقلابی رہنماء کیم اوکیون کو قتل کیا تھا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ بعد میں مقتول کی لاش ایک چینی بحری جہاز کے ذریعے کوریا لاکر دوسرے مخالفین کو عبرت دینے کے لیے سرعام رکھی گئى۔ جاپان کو یہ اقدام پسند نہیں آیا اور حالات میں مزید تناؤ اُس وقت پیدا ہوا جب چینی حکومت نے کوریا کے شہنشاہ کی درخواست پر تونگھاک باغیوں کی سرکوبی کے لیے فوج بھیجنے کے فیصلے سے جاپان کو آگاہ کرتے ہوئے، جنرل یوآن کی قیادت میں 2800 فوجی روانہ کیے۔ جاپان نے اِس بات کی مخالفت کی کہ یہ کنونش کی خلاف ورزی ہے اور فوج کشی کردی۔ جاپان کے 8000 فوجیوں نے شہنشاہِ کوریا کو ہٹا کر 8 جون سنہ 1894ء میں شاہی محل پر قبضہ کیا اور جاپان حمایتی گروپ کو اقتدار سونپا۔ نئى حکومت نے چینی فوجیوں کو مُلک سے نکل جانے پر مجبور کیا اور اِسی دوران میں جاپان نے مزید افواج بھیج دیں۔ جاپان کی بروقت اور کامیاب کاروائى سے اِسے بالادستی حاصل ہوئى اور معاہدۀ شیمونو سیکی کے تحت کوریا کو چین سے آزادی ملی۔ جاپان کو تائیوان اور پیسکادوریس کے جزیروں پر قبضہ کرنے اور منچوریا کے جنوبی سر ے پر بحری اڈا بنانے کا اختیار مل گیا۔ کئى مغربی ممالک کو جاپان کی بڑھتی ہوئى طاقت پر حیرانی ہورہی تھی۔ دوسری جانب روس کے شہنشاہ، زارِ روس، نکولس دوم بھی منچوریا اور کوریا پر اقتصادی بالادستی حاصل کرنے پر کام کررہا تھا اِس لیے موجودہ صورت حال، سلطنتِ روس اور سلطنتِ جاپان میں رسہ کشی کا سبب بنی۔ دونوں قوتوں نے جزیرہ نما لیاؤ دونگ، موکڈن اور کوریا اور جاپان کے سمندری علاقوں کے آس پاس اور دریائے زرد میں ایک دوسرے کے خلاف کارروائیاں شروع کیں۔ روس کی پالیسی تھی کہ وہ اپنی بحریہ اور بحری تجارت کی غرض سے بحرالکاہل تک رسائى کے لیے گرم پانیوں کی بندرگاہ حاصل کرلے، کیونکہ روس کی ولاڈی ووسٹوک کی بندرگاہ، صرف موسم گرما میں قابل استعمال تھی جبکہ جزیرہ نماء لیودونگ کی بندرگاہ، پورٹ آرتھر سارا سال کُھلی رہتی تھی۔ 30 جنوری 1902ء کو جاپان نے برطانیہ کے ساتھ اِینگلو۔ جاپانی اتحاد کا معاہدہ دستخط کیا۔ یہ ایک فوجی معاہدہ تھا جس سے روس اور جرمنی خطرہ محسوس کرنے لگے۔ آٹھ فروری 1904ء کو جاپانی بحریہ نے کوریا کے ساحل کے نزدیک روسی جہازوں پر حملہ کر دیا۔ پھر انھوں نے آرتھر بندرگاہ کا محاصرہ کیا اور بحرالکاہل میں واقع روسی بندرگاہ ولاڈی ووسٹوک کی ناکہ بندی کردی۔ یہی نہیں جاپانی فوجوں نے کوریا اور منچوریا پر بھی یلغار کردی، تاکہ سائبیریا سے آنے والی روسی فوجوں کا راستہ روکا جاسکے۔ اِس ساری صورت حال میں چین بے بس تماشائى بنا رہا۔ روس نے اپنے بالٹک بحری بیڑے کو حرکت دی جو یورپ اور افریقہ سے گزرتا ہوا ایشیا پہنچا، لیکن جاپانی بحری بیڑے نے پہلے سے اپنی حکمتِ عملی تیار کی ہوئى تھی اور روسی بیڑے کے آتے ہی حملہ کر دیا جس میں جاپان کو مکمل فتح نصیب ہوئى اور روس کے 40 بحری جہازوں میں سے صرف دو فرار ہونے میں کامیاب ہوئے۔ ایک اندازے کے مطابق، اِس جنگ میں جاپان کے 47 ہزار سے زیادہ، روس کے لگ بھگ 70 ہزار اور چین کے تقریباً 20 افراد لقمہ اجل بنے۔ کہا جاتا ہے کہ اِس جنگ میں مجموعی طور پر تقریباً ایک لاکھ 30 ہزار افراد ہلاک ہوئے۔ امریکی صدر روزویلٹ نے دونوں ممالک کے مابین پورٹسماوتھ کے امریکی بحری اڈے پر مذاکرات کا اہتمام کیا اور ثالث کا کردار ادا کیا، جس کی بدولت 5 ستمبر 1905ء کو ایک امن معاہدہ دستخط ہوا ۔ معاہدے میں طے ہوا کہ پورٹ آرتھر اور سخالین جزیرے کا آدھا جنوبی حصہ جاپان کے زیرِ قبضہ ہو اور کوریا کو جاپان کی کٹھ پُتلی ریاست بنا دیا گیا۔ امریکی صدر کو اِن خدمات کے صِلے میں نوبل امن انعام سے بھی نوازا گیا۔ روسی عوام بھی زارِ روس کی بدعنوانیوں سے بددِل ہوتے گئے اور سیاسی انتشار پھیلتا گیا۔ دہشت گردانہ حملے اور مزارعوں کے مظاہرے روز کا معمول بن گئے تھے اور یوں انقلابِ روس کی راہ ہموار ہوتى گئى۔ جاپان میں بھی عوامی سطح پر اِس امن معاہدے پر اعتراض کیا گیا کیونکہ وہ اِسے مہنگی فتح تصور کرتے تھے اور مطالبہ یہ تھا کہ سخالین کا پورا علاقہ جاپان کے قبضے میں آنا چاہیے تھا۔ جاپان اب ایشیا میں ایک نئے مشرقی طاقت کے طور پر اُبھر رہا تھا اور تجزیہ نگاروں نے اندازہ لگالیا تھا کہ اگر ایشیا میں مغربی طاقتوں کو کوئى مُلک شکست سے دوچار کر سکتا ہے تو وہ جاپان ہی ہے۔ جاپان کے قومی وقار میں زبردست اضافہ ہوا۔ چین اور روس کے خلاف فتوحات کے بعد، جاپانی سامراجیت نے مزید علاقوں کی طرف جارحیت کا رجحان اختیار کیا۔

جنگِ عظیم اول

[ترمیم]

جنگ عظیم اول سنہ 1914 سے 1918 تک لڑی گئى جو تاریخ میں انسانیت سوز واقعات سے بھری پڑی ہے ۔ انسانی تاریخ میں پہلی بار کیمیائى ہتھیار اور زہریلی گیس استعمال کی گئى ۔ شہری آبادی پر بڑے پیمانے پر بمباری کی گئى اور تاریخ میں پہلی بار بڑی تعداد میں فوج کو حرکت میں لایا گیا ۔ اِس جنگ نے قدیم یورپ کو مٹا کر نئے یورپ کو جنم دیا اور آمریت کا خاتمہ ہو گیا ۔ یہ انسانی تاریخ کی ایک تباہ کُن جنگ تھی جس میں 9000000 سے زیادہ مرد ، میدانِ جنگ میں ہلاک ہوئے اور اتنے ہی عام افراد غربت ، بھوک، قحط ، بیماری اور نسل کشی جیسے واقعات کی نذر ہوئے ۔ تاریخ کچھ یوں بتاتی ہے کہ 19 ویں صدی کے اواخر میں یورپ میں اتحاد بننے لگے تھے ۔ سنہ 1879 میں آسٹریا ۔ ہنگری جواُس وقت ایک ملک تھا اور جرمنی نے روس سے بچنے کے لیے آپس میں اتحاد کیا جِسے دی ڈول ایلائنس کہتے ہیں ۔ سنہ 1881 میں آسٹریا۔ہنگری نے سربیا کے ساتھ بھی اتحاد کیا اور اِس کا مقصد بھی روس کی سربیا کی جانب پیش قدمی کو روکنا تھا ۔ ایک سال بعد سنہ 1882 میں دی ٹرپل ایلائىنس نامی اتحاد معرض وجود میں آیا جس میں جرمنی اور آسٹریا۔ہنگری نے اٹلی کے ساتھ معاہدہ کیا ۔ اِس اتحاد کا مقصد اٹلی کو روس کے ساتھ شامل ہونے سے روکنا تھا ۔ اِن بدلتے حالات میں روس نے بھی اپنی حکمت عملی بدلتے ہوئے سنہ 1894 میں فرانس کے ساتھ فرنکو۔رشین ایلائنس کے نام سے ایک اتحاد بنایا جس کا مقصد جرمنی اور آسٹریا ۔ ہنگری سے اپنا دفاع کرنا تھا ۔ سنہ 1904 میں فرانس اور برطانیہ نے اینتات کورڈئیل کے نام سے ایک معاہدہ کیا جو باقاعدہ اتحاد تو نہیں تھا تاہم قریبی تعلقات کے لیے بہت اہمیت کے حامل تھا ۔ اِسی طرح کا ایک معاہدہ ، برطانیہ اور روس کے مابین سنہ 1907 میں اینگلو۔رشین اینتات کے نام سے دستخط ہوا ۔ جرمنی کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو روکنے کے لیے اِسی سال یعنی سنہ 1907 میں ٹرپل اینتات کے نام سے ایک معاہدہ ہوا جس میں روس ، فرانس اور برطانیہ شامل تھے ۔ اب یورپ تقسیم ہو گیا تھا یعنی ایک جانب جرمنی ، آسٹریا ۔ ہنگری ، سربیا اور اٹلی ، جبکہ دوسری جانب روس ، فرانس اور برطانیہ تھے ۔ چونکہ جاپان سنہ 1902 میں برطانیہ کے ساتھ معاہدہ کرچکا تھا اِس لیے اُس نے برطانیہ کی طرفداری کرتے ہوئے اعلان جنگ کیا اور جرمنی کو دھمکی دی کہ وہ فوری طور پر مشرقی بعید سے اپنے جنگی بحری جہاز باہر کر دے اور چین کے علاقے کیاوچو، جو موجودہ چِینداؤ کے نام سے پہچانا جاتا ہے میں واقع اڈے سے دستبردار ہو جائے ۔ جب جرمنی نے کوئى جواب نہیں دیا تو جاپان نے اعلان جنگ کر دیا ۔ جاپان کو بہت کم جانی نقصان کے بدلے فتح نصیب ہوئى ۔ اب جاپان کا ایشیا میں اثر مزید بڑھنے لگا اور اُس نے بحرالکاہل اور اردگرد زیر قبضہ علاقوں پر اپنی گرفت کو مزید تقویت دی ۔ سنہ 1915 میں جاپان نے چین سے 21 مطالبے کیے ۔ چونکہ اُس وقت چین خاصا کمزور ہو گیا تھا اس لیے بغیر کسی مزاحمت کے زیادہ تر مطالبات مان لیے اور شمال مشرقی چین میں جاپانی اختیار کو تسلیم کر لیا ۔ جاپان نے اپنی زیر قبضہ علاقے اور ریل کی پٹڑی کو منچوریا تک وسعت دی ۔ سنہ 1917 میں جاپان کے اتحادیوں نے اُس کی جانب سے جنگی حمایت کرنے پر جاپانی قبضوں اور دعوؤں کی خُفیہ طور حمایت کرنے پر اتفاق کیا ۔ جنگ عظیم اول ابھی جاری تھی کہ اِس دوران میں سنہ 1917 میں روس میں انقلاب آیا اور خانہ جنگی شروع ہوگئى ۔ اِس بدنظمی سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے امریکا، برطانیہ اور جاپان نے اپنی افواج ولاڈیواسٹوک میں اُتار دیں اور ٹرانس سائبیریا ریلوے تک کے کئى سو کلومیٹر علاقے پر قبضہ کر لیا ۔ سرکاری طور پر تو یہ کہا گیا کہ اِس آپریشن کا مقصد اتحادیوں کے وہ ہتھیار برآمد کرنا ہیں جو روس لیجائے گئے ہیں ۔ لیکن اِس کا اصل مقصد انقلاب روس یا بالشویک ریولوشن کے مخالفین کی مدد کرنا تھا۔ ابتدا میں ہر مُلک نے 7000 ہزار فوجی سائبیریا بھیجنے کا فیصلہ کیا لیکن جاپان نے فوری طور پر زیادہ ملوث ہونے کے لیے 72٫000 اہلکار روانہ کیے ۔ برطانیہ اور امریکا کو اب خدشہ ہونے لگا کہ یوں جاپان وہاں پر مستقل اڈے بنا سکتا ہے اور پھر وہاں سے جاپان کو نکالنے میں وقت لگے گا ۔ اُدھر یورپ میں جنگ عظیم اول ایک بڑی تباہی کے بعد ختم ہونے لگی ۔ جنگ لڑنے والے تمام ممالک اب تصفیہ کرنے لگے تھے اور اِس مقصد کے لیے فرانس کے شہر ورسائلز میں ایک کانفرنس بُلائى گئى ۔ جاپان بھی اِس کانفرنس میں مدعو تھا ۔ سنہ 1919 میں ٹریٹی آف ورسائلز نامی معاہدہ دستخط ہوا ۔ اِسی کانفرنس میں جاپان کو نئے بین الاقوامی نظام میں سرکاری طور پر دُنیا کے پانچ بڑے ممالک میں سے ایک تسلیم کیا گیا ۔ جاپان نے نئى بین الاقوامی تنظیم لیگ آف نیشن میں شمولیت اختیارکی ۔ جاپان کی منچوریا اور سخالین میں عملداری کو تسلیم کیا گیا اور بعد میں یہ آخری اتحادی تھا ، جس نے روس سے سنہ 1925 میں انخلا کیا ۔ جب جولائى سنہ 1914 میں جنگ عظیم اول چِھڑگئى تو یورپ کے ممالک ایک دوسرے پر حملے کرنے لگے جس کی وجہ سے اُن کی بین الاقوامی تجارت معطل ہوگئى تھی ۔ اب وہ باقی دُنیا کو کپڑا، مشینری اور کیمیکل برآمد کرنے سے قاصر تھے ۔ اِن حالات میں جاپانی مصنوعات کی مانگ بڑھ گئى جس سے جاپانی تاجر اور سرمایہ کار اچانک امیر ہو گئے اور انھوں نے سرمایہ کاری میں تیزی سے اضافہ کیا ۔ ہزاروں فیکٹریاں تعمیر کی گئیں اور جاپانی ٹیکسٹائل کی برآمد میں بہت اضافہ ہوا ۔ چونکہ جاپانی مصنوعات اِس سے قبل سستی اور غیر معیاری ہوتی تھیں ، لہذا سرمایہ کاروں اور صنعت کاروں نے پیداواری معیار کو بہتر کرنے کے لیے بیرونی ممالک سے جدید مشینری اور جدید تکنیک حاصل کی ۔ یوں کئى بڑی کمپنیاں معرضِ وجود میں آئیں اور مُلکی دولت کا بڑا حصہ اُن کے ہاتھ آیا ۔ جاپان میں قدرتی وسائل کی کمی اور تیزی سے بڑھتی ہوئى آبادی ایک لمحہء فکر بنتا جارہا تھا ۔ سنہ 1920 میں جاپان کی آبادی ساڑھے پانچ کروڑ سے زیادہ تھی جو گیارہ سال بعد ساڑھے چھ کروڑ تک جا پہنچی ۔ اُس دور میں آبادی میں سالانہ اضافے کی شرح دس لاکھ تھی ۔ جاپانی معیشت کو روزگار کے سالانہ ڈھائى لاکھ مواقع پیدا کرنے کی ضرورت تھی ۔ جاپان نے اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے اپنی برآمدات میں اضافہ کیا ۔ لیکن سنہ 1929 سے سنہ 1931 تک عالمی کسادبازاری یا مندی یعنی گریٹ ڈیپریشن کا دور دورۀ تھا ۔ عالمی تجارت کی حالت دگرگوں تھی ۔ مُلکوں نے درآمدات میں کمی کردی تھی ۔ بے روزگاری میں بڑے پیمانے پر اضافہ ہوا ، اُجرتوں میں کمی کی گئى ۔ نتیجتاً مظاہروں نے زور پکڑ لیا اور یورپ مایوسیوں کے بادلوں میں گِھرگیا ۔ اِنہی حالات نے جاپان پر بھی اثر کرنا شروع کر دیا تھا ۔ سنہ 1920 کی دھائى میں جاپان کی جمہوری تحریک نے بھی زور پکڑا جسے تائىشو جمہوریت کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔ 30 جولائى کو شہنشاہ میجی کے انتقال کے بعد تائىشو نے جاپان کے 123 ویں شہنشاہ کی حثیت سے منصب سنبھالا جن کا دور30 جولائى 1912 سے 25 دسمبر1926 تک رہا ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جاپان میں شہنشاہ اپنے اصلی نام سے نہیں بلکہ اعزازی نام سے پہچانا جاتا ہے اور تاریخ میں اُن کے دور کواِنہی ناموں لکھا جاتا ہے تو یوں تائىشو بھی اعزازی نام ہے ۔ میجی دور میں بڑے پیمانے پر اندرون و بیرون مُلک سرمایہ کاری اور دفاعی پروگراموں پر کثیر اخراجات کی وجہ سے سرمایے کی قلت ہونے لگى اور نوبت یہاں تک آ گئى کہ بیرونی قرضے لوٹانے کے لیے مناسب رقوم کی دستیابی مشکل بنتی جارہی تھی ۔ جاپان کے اندر سیاسی اور معاشی دباؤ بڑھتا جا رہا تھا ۔ اندرون ملک پیچیدگی کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ جاپان نے سائبیریا کی مہم جوئى سے کچھ خاص حاصل نہیں کیا تھا اس لیے فوج کا ملکی سطح پر اثر کم ہونے لگا ۔ واشنگٹن میں سنہ 1921–22 میں ہونے والی کانفرنس میں اتحادی ممالک نے جاپان پر زور ڈالا کہ وہ بحریہ کے حوالے سے 3-5-5 کی شرح کا معاہدہ دستخط کرے یعنی ہر پانچ امریکی اور پانچ برطانوی بحری جنگی جہازوں کے مقابلے میں جاپان کوتین جہاز رکھنے کی اجازت ہوگی ۔ یہ جاپان کی سفارت کاری میں شکست کا ایک بڑا واقعہ سمجھا جاتا ہے ۔ سنہ 1920 کے بعد کا جاپانی دور اندرونی بے امنی کا شکار رہا ۔ خراب اقتصادی حالات کی وجہ سے ملکی سیاسی عدم استحکام بڑھتا گیا اور کئى سیاست دانوں بشمول ایک وزیر اعظم کے قتل کردئے گئے ۔ فوج پر نہ تو پارلیمنٹ اور نہ ہی حکومت کو کنٹرول تھا اور یہاں تک کہ شہنشاہ بھی بے بس تھا ۔ بلکہ حکومت کی باگ دوڑ عوامی حکومت کی بجائے فوج کے ہاتھوں میں تھی ۔ جاپانی سیاسی پارٹیوں کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا گیا کہ یہ اپنے مفاد کی خاطر قوم کو متحد کرنے کی بجائے منقسِم کرنے کی وجہ بن گئى ہیں ۔ بالاخر تمام پارٹیوں نے اپنے آپ کو تحلیل کرنے پر رضامندی ظاہرکرکے یک جماعتی تنظیم امپریل رول اسیسٹینس ایسوسیشن قائم کی جس میں سیاسی جماعتوں ، پریفیکچروں، جو ایک ضلع جتنا علاقہ ہوتا ہے، میں قائم خواتین اور ہمسایوں کی تنظیموں نے شمولیت کی ۔ لیکن اِس تنظیم میں مربوط سیاسی ایجنڈے کی کمی تھی لہذا ، گروپوں کی باہمی چپقلش اور جھڑپیں بدستور جاری رہیں ۔ دراصل اِس تنظیم کے قیام کی وجہ جہاں مُلکی بدحالی تھی وہاں ساکورائے بلاسم سوسائٹی بھی تھی ۔ یہ قوم پرستوں کی ایک خُفیہ تنظیم تھی جو د سمبر 1930 میں جاپان کی شاہی فوج میں شامل لیفٹینٹ کرنل کینگورو ہاشی موتو، نے دیگر کئى نوجوان افسروں کے ساتھ ملکر بنائى تھی ۔ اِس کا مقصد ریاست کو عسکری خطوط پر منظم کرنا تھا اور اِس مقصد کے لیے اگر بغاوت کرنے کی ضرورت پڑ جائے تو اُس پر بھی عمل درآمد کیا جائے گا۔ ہاشی موتو، اُن دِنوں میں جاپانی شاہی فوج میں روسی شعبہء کے سربراہ تھے ۔ ابتدا میں اِس خفیہ تنظیم کے تقریباً دس ارکان تھے جو فروری 1931 میں پچاس سے زیادہ ہو گئے تھے ۔ ایک اندازے کے مطابق اکتوبر میں اِن کی تعداد سینکڑوں ہوگئى ۔ انھوں نے ملک کے سیاسی اور معاشی نظام کو بدعنوان قراردیا اور وہ ریاستی سوشلزم لاکر نئى تبدیلی لانا چاھتے تھے ۔ لیکن دو واقعات میں ناکامی کے بعد اِس تنظیم کی قیادت کوگرفتار کر لیا گیا اور تنظیم توڑی دی گئى ۔ اُدھر یورپ میں حالت کچھ یوں رُخ اختیار کر رہے تھے کہ سنہ 1930 کی دھائى میں ابتدائى چند سالوں تک کساد بازاری رہنے کے بعد حالات سنھبلنے پر کئى مُلکوں میں مطلق العنان حکومتیں قائم ہو چکی تھیں جن میں ایڈولف ہٹلر سرفہرست تھے ۔ وہ سنہ 1933 میں جرمنی کے چانسلر یعنی ریاستی سربراہ بن چکے تھے ۔ اُن کی توسیع پسندانہ پالیسیوں سے بے چینی بڑھتی جارہی تھی ۔ ایک طرف جرمنی پولینڈ کو قبضے میں لینے کی منصوبہ بندی کر رہا تھا تو دوسری جانب اٹلی نے ایتھوپیا پر قبضہ کر لیا تھا ۔ جاپان اور چین کے تعلقات میں بھی کشیدگی پیدا ہوگئى تھی کیونکہ جاپان کے زیرِقبضہ علاقے منچوریا میں واقع جاپانی ریلوے لائن پر ایک دھماکا ہوا ۔ جاپانیوں نے اِس تخریب کاری کا الزام چینیوں پر لگایا لیکن کچھ کا خیال ہے کہ جاپانیوں نے خود دھماکا کرکے منچوریا پر فوجی کشی کا جواز بنایا تاکہ معیشت کے لیے مزید وسائل، جاپانیوں کی آباد کاری اور مصنوعات کی فروخت کے لیے منڈیاں حاصل کی جائیں اور ایشیا پر اپنی ثقافتی بالادستی قائم کی جائے ۔ بحرحال اِس دھماکے کی وجوہات ابتک متنازع ہیں۔ یہ واقعہ تاریخ میں مکدین انسیڈنٹ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔ جاپانی فوج نے سنہ 1931 میں لیفٹیننٹ کرنل کانجی ایشی وارا کی قیادت میں منچوریا پر چڑھائى کی اور چین اور اندرون منگولیا کے علاقوں پر مشتمل منچوریا میں مانچو کو نامی ایک آزاد ریاست قائم کردی جو دراصل ایک کٹھ پُتلی حکومت تھی ۔ اُس وقت چین میں قوم پرست رہنماء چیانگ کائی شیک کی ایک کمزور حکومت قائم تھی جو مختلف دھڑوں کے مابین لڑی جانے والی اندرونی خانہ جنگی سے مشکلات کا شکار تھی اور قحط سالی اور بدعنوانی نے حکومتی بُنیادوں کو کُھوکھلا کر دیا تھا لیکن اِن میں کمیونسٹوں کے حوصلے بلند تھے ۔ منچوریا میں جاپانی حمایت یافتہ نئى حکومت کو چین کی کومنتانگ حکومت نے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا ۔ عالمی سطح پر کسی بھی بڑی طاقت نے جاپانی جارحیت کو روکنے کی کوشش نہیں کی ۔ چین نے لیگ آف نیشن سے مدد مانگی جس نے سنہ 1933 میں ایک تفتیشی کمیٹی مقرر کی ۔ کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں جارحیت کی مذمت کی لیکن جاپان کو اشتعال دینے سے گریز کیا ۔ یہ تنظیم ، جاپانی جارحیت کو روکنے میں ناکام رہی اور اُسے ایک رُکن کی حثیت سے بھی برقرار نہ رکھ سکی ۔ برطانیہ اور فرانس نے کوئى کردار ادا نہیں کیا کیونکہ وہ دونوں ممالک اپنے معاشی اور سیاسی گرداب میں پھنس چکے تھے جب کہ امریکا کُلی طور پربین الاقوامی کساد بازاری سے نبردآزما تھا ۔ عالمی برادری نے جاپان کی جانب سے کیے جانے والے بے دریغ قتل عام اور اپنی مرضی کی حکومت بنانے پر مزمت کی ۔ کہاجاتا ہے کہ یہیں سے جاپان اور امریکا کے مابین اختلافات کی خلیج بڑھتی چلی گئى بلکہ اِسے کسی بڑے ٹکراؤ کا پہلا قدم سمجھا جاتا ہے ۔ جرمنی اور جاپان نے روس کے بنائی ہوئی بین الاقوامی کمیونسٹ تنظیم کومنٹرن کے خلاف 25 نومبر 1936 کو اینٹی کومنٹرن معاہدے پر دستخط کیے جس کے تحت اگر روس جرمنی یا جاپان پر حملہ کرے گا تو دونوں ممالک اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے ایک دوسرے سے مشاورت کریں گے ۔ دونوں مُلکوں نے روس کے ساتھ کسی بھی قِسم کا سیاسی معاہدہ نہ کرنے پر اتفاق کیا اور اِس کے علاوہ جرمنی نے جاپان کے زیر اثر مانچو کو، کو تسلیم کیا ۔ منچوریا کی لڑائى اور اِسی نوعیت کے دیگر واقعات نے جاپان اور چین کے مابین دوسری جنگ کی راہ ہموار کردی ۔ شنگھائى کے مارکو پولو پُل کے رونماء ہونے والے واقعہ کو بھی اس جنگ کی وجہ سمجھا جاتا ہے ۔ واقعہ کچھ یوں تھا کہ جون 1937 سے جاپانی افواج نے مارکوپولوپُل کے مغربی علاقے میں رات کی تاریکی میں فوجی تربیت جیسی سرگرمیاں بڑھادی تھیں ۔ چینی حکومت نے کہا کہ چونکہ اِس شو و غل سے مقامی آبادی متاثر ہورہی ہے لہذا ایسی سرگرمیوں کے بارے میں پہلے سے آگاہی دی جائے ۔ گو کہ جاپانی حکومت نے اس چینی درخواست سے اتفاق کیا تاہم 7 جولائى 1937 کی رات جاپانی افواج نے بغیر اطلاع دیے ایک بار پھر اپنی سرگرمیاں شروع کیں جس پر علاقے میں متعین مقامی چینی فورسز چوکس ہوئیں کہ شاید جاپانی فوج کسی حملے کی تیاری کر رہی ہے ۔ لہذا ، اُنھوں نے متنبہ کرنے کے لیے ہوائى فائرنگ کی ۔ اِسی اثناء میں فائرنگ کا تبادلہ ہوا اور اِس کی آواز دور تک سُنی گئى ۔ جب اُس علاقے میں متعین جاپانی فوجی اپنے رجمنٹل کمانڈر کو رپورٹ دینے میں ناکام ہوا تو میجر کیوناؤ ایچیکی کو شک ہو گیا تھا کہ اُس کا سپاہی، چینیوں کے ہتھے چڑھ گیا ہے ۔ جاپانی فوج نے چینی رجمنٹل کمانڈر کو فون کیا کہ وہ اپنا جوان ڈھونڈنے کی غرض سے علاقے کی تلاشی لینا چاہتے ہیں ۔ گو کہ مذکورہ فوجی مل گیا تھا لیکن پھر بھی جاپانی ملٹری انٹیلیجنس نے چینی جنرل چن دیچون سے یہی مطالبہ دوہرایا جس کے جواب میں کہا گیا کہ چونکہ فوجی سرگرمی بغیر اطلاع دیے ہورہی تھی اس لیے وہ خود تلاشی لیں گے ۔ مگر جاپانی فوج بضد رہی کہ وہ خود ہی تلاشی لیں گے اور انھوں نے دو گھنٹے بعد الٹیمیٹم جاری کر دیا ۔ 8 جولائى کی صبح ساڑھے 3 بجے جاپانی فوج کا قافلہ علاقے میں پہنچ گیا ۔ صبح 4 بج کر 50 منٹ پر دو جاپانیوں کو وانپنگ علاقے میں جانے کی اجازت دی گئى ۔ تلاشی کے دوران میں جاپانی فوج نے بکتر بند گاڑیوں سے مارکوپولو پُل پر حملہ کر دیا ۔ چینی فوج کے کرنل جے شینگ وین نے اپنے سپاہیوں کو ہر صورت میں اس پُل کے دفاع کو حکم دیا ۔ دونوں اطراف سے کئى فوج مارے گئے ۔ اِس بڑھتی ہوئى کشیدگی نے بعد میں بڑی جنگ کی شکل اختیار کرلی ۔ اُس وقت کے جاپانی وزیر اعظم کونوئىے کی حکومت نے چینیوں کو سزا دینے کے لیے چین کے دار الحکومت نانجنگ سمیت شمالی اور مشرقی ساحلی علاقوں پر قبضہ کرنے کا فیصلہ کیا ۔ فوجی کاروائى کرتے ہوئے چینیوں سے ہتھیار ڈالنے کا کہا گیا لیکن انھوں نے انکار کر دیا ۔ جاپانی وزیر اعظم کو فتح حاصل کرنے کی اُمید تھی مگر یہ سب مشکل بنتا جارہا تھا کیونکہ چین میں قوم پرستی اور خود انحصاری کا جذبہ زور پکڑ چکا تھا ۔ چینیوں نے اس جنگ کو جنگ مزاحمت جاپان کے طور پر لے لیا تھا۔ جاپان پر الزام ہے کہ اُس نے نانجنگ پر قبضے کے دوران میں بے دریغ قتل عام کیا ۔ نانجنگ اس وقت چین کا دار الحکومت تھا ۔ ہزاروں عورتوں کی آب رویزی کی اور سینکڑوں ہزاروں لوگوں کا قتل کیا ۔ ایک اندازے کے مطابق یہ قتل عام اس وقت سے شروع ہوئى جب جاپانی فوج نومبر کے وسط میں جیانگ سو میں داخل ہوئى اور یہ سلسلہ مارچ 1937 کے اؤاخر تک چلتا رہا ۔ مرنے والوں کی تعداد میں اختلاف پایا جاتا ہے ۔ مشرق بعید کے لیے قائىم بین الاقوامی فوجی ٹربیونل کا اندازہ ہے کہ 2 لاکھ 60 ہزار افراد ہلاک ہوئے ۔ چین کے سرکاری اعداد و شمار میں یہ تعداد 3 لاکھ بتائى ہے جبکہ جاپان کے تاریخ دانوں نے ایک لاکھ اور دو لاکھ کے درمیان میں بتائى ہے ۔ جولائى 1937 میں جب بیجنگ کے قریب جنگ لڑی جارہی تھی تو اِس کے ساتھ ہی ایک ماہ بعد شنگھائى میں بھی لڑائى نے زور پکڑلیا ۔ جاپان مکمل طور پر اعلان جنگ نہیں کر رہا تھا کیونکہ اُسے برطانیہ اور امریکا کی جانب سے مداخلت کا خطرہ تھا ۔ جاپانی پراپیگنڈے میں چین کے خلاف جنگ کو جنگ مقدس کہا جارہا تھا ۔ اب وزیر اعظم کونوئىے نے جنوب مشرقی ایشیا کے لیے ایک نئے آرڈر کا اجرا کیا ۔ یہ ایشیائى عوام پر سپریم جاپانی حکمرانی قائم کرنے کا منشور تھا ۔ دوسال کی مدت میں رونماء ہونے والے پے درپے واقعات کی وجہ سے امریکا نے چین کی حمایت کا اعلان کرتے ہوئے جاپان سے مطالبہ کیا کہ وہ چین سے نکل جائے اور اسے تنہا چھوڑ دے ۔ جب جاپان نے پوری طرح عمل درآمد نہیں کیا تو امریکا نے جاپان کے ساتھ تیل اور لوہے کی تجارت روک دی ۔ جنگِ شنگھائى میں چین نے سخت مزاحمت کا مظاہرہ کیا ۔ چین اور جاپان دونوں کا بہت زیادہ جانی نقصان ہوا اور چینی افواج نے نان جینگ سے پسپائى اختیار کی لیکن تاثر یہ ملا کہ اب انھیں شکست دینا مشکل ہوتا جارہا ہے ۔ اب چینی حکمت عملی یہ تھی کہ جنگ کو اس وقت تک طول دیا جائے جب تک امریکا جنگ میں شامل نہ ہو ۔ جاپانی فوج کی پیش قدمی سست کرنے کے لیے مختلف حربے استعمال کیے جانے لگے مثلاً جاپانی فوج کو مشکلات میں ڈالنے کے لیے پانی کے ڈیم توڑدیئے گئے جس سے سیلاب آ گیا تھا ۔ وہ جاپانی فوج کو اُس حد تک بڑھنے دے رہے تھے جہاں انھیں گھیرے میں لے کر حملہ کیا جائے اور اِس کی مثال انھوں نے سنہ 1939 کے چانگشا کی دفاع کے دوران میں پیش کی ۔ سنہ 1940 میں چین کی سرخ فوج نے ملک کے شمال میں ایک بڑا حملہ کیا اور ریلوے لائنیں اُڑا دیں اور کوئلے کی بڑی کان تباہ کردی ۔ اب جاپانی فوج سخت مایوسی اور گومگو کی کیفیت میں تھی اور انھوں نے سب کو قتل کرو، لوٹو اور جلاؤ کی پالیسی اختیار کرلی اور وسیع پیمانے پر جنگی جرائم کیے ۔ دوسری جانب جاپان کے سوویت یونین کے ساتھ بھی تعلقات خراب تھے اور دونوں ملکوں نے سنہ 1938 میں جھیل خسان کی لڑائى لڑی جس کی وجہ یہ تھی کہ جاپان نے مانچو کوو میں اس علاقے کو شامل کیا جس پر روس کا دعویٰ تھا ۔ لڑائى اس وقت شروع ہوئى جب جاپان نے سوویت یونین سے مطالبہ کیا کہ وہ خاسان نامی جھیل کے مغرب اور پری موریئى کے جنوب میں واقع پہاڑوں سے اپنی سرحدی فوج ہٹا لے ۔ یہ علاقہ ولاڈیواسٹوک سے زیادہ دور نہیں ۔ روس نے یہ مطالبہ مسترد کر دیا ۔ جاپانی فوج نے ھلکے اور درمیانی ٹینکوں کی مدد سے حملہ کیا اور روس نے بھی ٹینکوں اور آرٹرلی کی مدد سے فوری جوابی حملہ کر دیا ۔ جاپان نے اپنی فوجی قوت بڑھانے کے لیے مزید کمک بھیجی لیکن کامیابی حاصل نہ ہوئى اور جاپانی فوجوں کو سوویت علاقائى حدود سے پیچھے دھکیل دیا گیا ۔ جاپان کو کامیابی نصیب نہیں ہوئى اور اُس نے نئى حکمت عملی کے ساتھ سوویت یونین پر ایک اور بھرپور حملہ کرنے کی منصوبہ بندی شروع کردی ۔ جب جاپان نے مانچو کوو کی ریاست قائم کی تو اِس نئى ریاست اور منگولیا کے مابین خلخیان نامی دریا کو سرحد کی حد بندی قرار دیا ۔ اُس وقت کی قابض جاپانی فوج کے آئى جے اے 23 ویں ڈویژن کو مُلک کی بہترین یونٹس میں سے شمار کیاجاتا تھا ۔ لڑائى اُس وقت شروع ہوئى جب 11 مئى 1939 کو منگول فوج کے گھوڑ سوار یونٹ کے تقریباً 90 سپاہی مانچو کوو کے متنازع علاقے میں داخل ہوئے ۔ مقامی فوج نے حملہ کرکے انھیں پسپا کر دیا لیکن دو دِن بعد منگولوں نے بڑی تعداد کے ساتھ حملہ کیا جس کو روکنا مانچو کوو کی فوج کے بس کا کام نہیں تھا لہذا جاپانی فوج کی مدد طلب کی گئى ۔ جاپانی فوج کی آمد پر منگول تواُس علاقے سے نکل گئے تاہم 28 مئى کو سوویت اور منگول فوجوں نے مشترکہ طور پر حملہ کیا ۔ جاپانی فوج نے لیفٹینٹ کرنل یا اوزو آزوما کی قیادت میں مقابلہ کیا لیکن 8 افسروں اور 97 جوانوں کی ھلاکت کے بعد اُسے شکست ہوئى ۔ جاپانی فضائیہ نے منگولیا میں واقع سوویت یونین کے ہوائى اڈوں پر حملے کیے اور کئى جہاز مار گرائے لیکن یہ حملے ٹوکیو میں واقع شاہی جاپانی فوج کے ہیڈ کوارٹرکی اجازت کے بغیر کیے گئے تھے ۔ لہذا ، اطلاع ملنے پر مزید فضائى حملے نہ کرنے کا حکم جاری کیا گیا ۔ جون کے مہینے میں سوویت یونین کے نئے لیفٹینٹ جنرل گیورگی زوخوف پہنچے ۔ ماہ بھر سوویت اور منگول فوجوں کی دریائے نومونھان کے اِرد گرد کارروائیاں جاری رہیں ۔ دخل اندازوں کی سرکوبی کے لیے جاپانی لیفٹینٹ جنرل میچی تارو کو ماتسو بارا کو کاروائى کرنے کی اجازت دے دی گئى ۔ جاپان کی مختلف رجمنٹوں نے کئى محاذوں سے حملے کیے لیکن سوویت افواج نے سخت مزاحمت کی ۔ اِن جھڑپوں میں جاپانی فوج کے پانچ ہزار فوجی ہلاک ہوئے اور اسلحہ و گولہ بارود کی کمی محسوس ہونے لگی ۔ گو کہ اب جاپان کو 75000 فوجی اور سینکڑوں جہازوں کی قوت حاصل تھی تاہم جاپانی فوج نے کچھ وقت کے لیے پسپائى اختیار کی اور 24 اگست کو ایک بار پھر نئى صف بندی کرتے ہوئے تیسرے بڑے حملے کی منصوبہ بندی کی ۔ دوسری جانب سوویت اور منگول افواج نے ٹینک بریگیڈز، انفنٹری ڈویژن، کیولری، ائر ونگ اور 50٫000 فوج کو حرکت دی ۔ دریائے خلخیان کے آس پاس مختلف محاذوں پر گھمسان کا رن پڑا ۔ مخالف فوجوں نے جاپانیوں کے مواصلاتی رابطے منقطع کرتے ہوئے گھیرے میں لے کر پے درپے حملے کیے ۔ بالاخر 31 اگست 1939 کو شکست جاپانی فوج کا مقدر بنی اور بچ جانے والے یونٹس نے نوموھان کے مشرق کی جانب پسپائى اختیار کی ۔ ایک اندازے کے مطابق اِس جنگ میں جاپان کے 45٫000 جبکہ سوویت یونین کے 17٫000 فوجی ہلاک ہوئے ۔ اگلے دِن یعنی یکم ستمبر 1939 کو ہٹلر کی فوجوں نے پولینڈ پر فوج کشی کرکے جنگ عظیم دوم کا آغاز کر دیا ۔

جنگِ عظیم دوم

[ترمیم]

جاپان پر یہ بات عیاں ہو چکی تھی کہ سائبیریا اور منگولیا کی مہم جوئى ایک لاحاصل عمل ہے۔ چونکہ ایشیا میں برطانیہ، فرانس، ہالینڈ وغیرہ کا اثر و رسوخ کئى عشروں سے چھایا ہوا تھا اور یہ جاپانی مفادات کے برعکس تھا کیونکہ وہ بھی اپنے زیرقبضہ علاقوں پر گرفت مضبوط کرنے اور مزید علاقوں پر اثر بڑھانے کا خواہش مند تھا اس لیے اُس نے جرمنی اور اٹلی کے ساتھ معاہدہ کرنے کو ترجیح دی اور یوں جاپان نے 27 ستمبر 1940ء کو جرمنی اور اٹلی کے ساتھ محوری معاہدے کے نام سے ایک معاہدہ دستخط کیا۔ یہ وہ فوجی اتحاد تھا جسے یورپ، افریقہ، مشرقی اور جنوب مشرقی اور بحرالکاہل کے بڑے حصے پر بالادستی حاصل تھی۔ اُدھر یورپ میں جرمنی نے پولینڈ کو شکست دینے کے بعد، برطانیہ اور فرانس کے خلاف جنگ شروع کردی تھی اس لیے روس نے ضروری سمجھا کہ اپنی دفاع کے لیے زیادہ توجہ یورپ پر دے۔ اُس نے مشرقی بعید سے بہتر تعلقات کے لیے 13 اپریل 1941 کو جاپان کے ساتھ عدم جارحیت کا سویت۔جاپانیز عدم جارحیت نامی معاہدہ دستخط کیا۔ اُس وقت جنوب مشرقی ایشیا میں فرانس اور ہالینڈ کی نوآبادیاتی حکمرانی تھی۔ سائبیریا اور منگولیا جیسے خطوں کی نسبت یہاں پر قدرتی وسائل زیادہ تھے اس لیے جاپان نے اِس جانب بڑھ کر علاقوں پر قبضہ کرنے کا منصوبہ بنالیا۔ جرمنی نے فرانس اور ہالینڈ کو شکست دینے کے بعد بحری اور فضائى طاقت سے برطانیہ کا محاصرہ کر لیا تھا۔ اب جاپان کے لیے راہ ہموار تھی کہ وہ جنوب مشرقی ایشیا کی جانب پیش قدمی کرے۔ انڈو چائنہ (ویت نام ، لاؤس،کمبوڈیا) فرانس کی کالونی تھی اور اُس وقت فرانس میں وچی فرانس کی حکومت تھی جو ہٹلر کی مرضی کی ایک کٹھ پُتلی حکومت تھی کیونکہ فرانس کو جرمنی کے ہاتھوں شکست کے بعد دونوں کے مابین جنگ بندی ہوگئى تھی۔ جاپان نے انڈو چائنہ میں داخلے کی اجازت مانگی اور 22 ستمبر 1940 میں ویچی فرنچ کی انتظامیہ اور جاپان کے مابین ایک معاہدہ دستخط ہوا جس کے تحت جاپان کو اڈے قائم کرنے اور مال کی ترسیل کی اجازت مل گئى۔ جاپان کا مقصد جنوب مشرقی ایشیا میں اتحادیوں کو شکست دینے کے لیے فوجی اڈے قائم کرنا تھا۔ معاہدے کے چند گھنٹوں بعد جاپان کی پانچویں ڈویژن فوج لیفٹینٹ جنرل آکی ہیتو ناکامورا کی قیادت میں ہلکے اور درمیانے ٹینکوں اور 30٫000 فوج سمیت چین سے نکل کر انڈوچائنہ میں تین اطراف سے داخل ہوگئى۔ فرانسیسی اور انڈوچائنیز نوآبادیاتی فوج نے مزاحمت کی کوشش کی مگر جاپان جیسی بڑی اور طاقتور فوج کا مقابلہ کرنا ناممکن تھا۔ انڈو چائنیز حکومت نے جاپان سے احتجاج کیا کہ یہ معاہدے کی خلاف ورزی ہے مگر سب بے سود۔ 26 ستمبر کی شام، جنگ منطقی انجام کو پہنچی کیونکہ جاپان ھنوئى کے باہر واقع گیلام ہوائى اڈے پر قبضہ کرچکا تھا۔ اِس قبضے کی بدولت، جاپان نے سوائے برما کے چین کی ہر طرف سے ناکہ بندی مکمل کرلی تھی۔ جاپان کو امریکا کے ساتھ بڑھتی ہوئى کشیدگی کی وجہ سے جنگ چِھڑنے کا خطرہ محسوس ہورہا تھا اس لیے جاپان نے 27 ستمبر 1940ء کو جرمنی کے شہر برلن میں جرمنی اور اٹلی کے ساتھ مل کر ایک عسکری معاہدہ سہ فریقی معاہدے پر دستخط کیے۔ اِس معاہدے پر جرمنی کے چانسلر ایڈولف ہٹلر، اٹلی کے وزیر خارجہ گلیزو سیانو اور جاپانی سفیر سابورو کوروسو نے دستخط کیے۔ یہ تینوں مُلک اب محوری طاقتوں کے نام سے پہچانے جانے لگے۔ انھوں نے دس سال تک ایک دوسرے کی سیاسی، اقتصادی اور فوجی حمایت اور باہمی مفادات کا تحفظ کرنے پر اتفاق کیا۔ بعد میں ہنگری، رومانیہ، سلواکیہ، بلغاریہ، یوگوسلاویہ اور کروشیا نے بھی شمولیت اختیار کی ۔

پرل ہاربر پر حملہ

[ترمیم]

امریکا کو جاپان کا انڈو چائنہ پر قبضہ اور پھر جرمنی اور اٹلی سے معاہدہ ایک آنکھ نہیں بھایا ۔ 25 جولائى 1941 کو امریکا نے جاپان کے تمام اثاثے منجمد کرنے کا حُکم دیا ۔ چونکہ جاپان کو نئے قدرتی وسائل ڈھونڈنے کے لیے اپنی مہم جوئى جاری رکھنی تھی اور اِس عمل کے لیے فوجی کاروائى ناگزیر تھی تو امریکا نے جاپان کے لیے تیل کی سپلائى بھی روک دی جس سے جاپانی فوج اور خصوصاً بحریہ بہت متاثر ہوئى ۔ کہاجاتا ہے کہ جاپانی وزیر اعظم کونوے فومی مارو سمیت کئى جاپانی رہنماؤں کا خیال تھا کہ امریکا سے جنگ کا انجام اُن کی شکست ہوگی لیکن وہ یہ بھی جانتے تھے کہ امریکا نے جو مطالبات کیے ہیں اُس کو پورا کرنے سے جاپان عالمی طاقت نہیں رہے گا اور وہ مغربی طاقتوں کا شکار ہو جائے گا ۔ اب جاپان کے پاس تین راہیں تھیں اول یہ کہ چین اور انڈو چائنہ سے انخلا کرنے کے امریکی مطالبے کو پورا کیا جائے ۔ دوم ، شرائط میں نرمی کرنے کے لیے امریکا سے مزاکرات کیے جائیں اور سوم ، مغربی طاقتوں سے پنجہ آزمائى کی جائے ۔ جاپان ایک عجیب مخمصے کا شکار ہو چکا تھا ۔ نتیجہ یہ نکلا کہ چار بڑے فوجی جرنیلوں اوسامی ناگانو، کوتوہیتو کانین، ہاجیمے سوگی یاما اور ہیدیکی توجو نے اظہار خیال کیا کہ اب امریکا کے ساتھ جنگ ناگزیر ہے اور انھوں نے اُس وقت کے شہنشاہ شوا کو جنگی منصوبے پر دستخط کرنے کے لیے رضامند کیا ۔ نومبر1941 میں امریکا ، برطانیہ اور ہالینڈ کے خلاف جنگی منصوبے کی منظوری دے دی گئى ۔ جنگ سے قبل کچھ جرنیلوں نے متنبہ کیا کہ جنگ شروع کرنے کے بعد جاپان کے لیے چھ ماہ تک موافق حالات ہوں گے اور اگر جنگ نے طول پکڑا تو پھرجاپان کی شکست یقینی ہے ۔ امریکا نے بھی جاپان کے بدلتے تیور کا اندازہ لگا لیا تھا اور خُفیہ رپورٹوں سے یہ خدشہ ظاہر کیا گیا تھا کہ ممکن ہے جاپان، فلپائن پر حملہ کر دے لہذا امریکا نے وہاں فوجی صف بندی شروع کردی ۔ امریکا کو یقین نہیں تھا کہ جاپان اتنی بہادری دیکھائے گا کہ وہ اُس کی سرزمین پر حملہ کر دے لیکن 7 دسمبر 1941 کو جاپان نے پرل ہاربر پر حملہ کرکے امریکا کے سارے اندازوں کو غلط ثابت کر دیا ۔ جاپان کی شاہی بحریہ نے وائس ایڈمرل چوایچی ناگومو کی قیادت میں علی الصُبح میڈگیٹ سب میرینز سے بحری جبکہ طیاروں سے فضائى حملہ کیا جو نہ صرف امریکا بلکہ دُنیا بھر کے لیے ایک چونکادینے والا واقعہ تھا ۔ اِس حملے میں جاپانی افواج نے اُس علاقے میں امریکا کے تمام ہوائى اڈوں اور فوجی تنصیبات کو نشانہ بنایا ۔ زمین پر موجود تقریباً ہر امریکی طیارے کو تباہ کیا گیا جن کی تعداد 155 بتائى جاتی ہے ۔ اِس حملے میں 2٫403 امریکی بھی ہلاک ہوئے ۔ امریکی بحری جنگی جہاز یو ایس ایس اریزونا دھماکے سے پھٹ گیا اور اُس پر سوار عملے کے 1٫100 افراد ہلاک ہو گئے ۔ بمباری شروع ہونے کے بعد جن پانچ سب میرینز نے امریکی بحری جنگی جہاز کو نشانہ بنایا وہ بھی واپس نہیں لوٹیں اور اُس پر سوار دس افراد میں سے صرف ایک جاپانی کازو او ساکاماکی زندہ بچا جِسے امریکا نے گرفتار کر لیا تھا اور وہ جنگ عظیم دوم میں پہلا جاپانی جنگی قیدی بنا ۔ جاپان کی حکمت عملی یہ تھی کہ اگر امریکی بحریہ کو بحرالکاہل میں بِے دست و پا کیا گیا تو انھیں ایشیائى خطے میں فوجی کارروائیاں کرنے میں آسانی رہے گی ۔ 8 دسمبر1941 کو امریکی کانگرس نے جاپان کے خلاف اعلان جنگ کر دیا ۔ جاپانی حملے کے فوری بعد11 دسمبر1941 کو جرمنی نے بھی امریکا کے خلاف اعلان جنگ کر دیا اور امریکیوں کے لیے حیران کُن بات یہ تھی کہ ایکسیز پکٹ کے تحت جرمنی پابند بھی نہیں تھا ۔ اب امریکی انتظامیہ اور عوام کو پختہ یقین ہو گیا تھا جنگ عظیم دوم اُن کے گلے پڑچکی ہے ۔ جاپان کا اندازہ درست ثابت ہوتے ہوئے قلیل مدتی فائدہ یہ ہوا کہ اُسے ایشیا میں کارروائیاں کرنے میں آسانی ہوئى ۔ جاپان پہلے ہی منچوریا، شنگھائى ، فرنچ انڈو چائنہ اور تائیوان کو کالونی بنا چکا تھا اور بڑھتے بڑھتے برٹش ملایا یعنی برونائى ، ملائشیا ، سنگاپور اور ہالینڈ کے ڈچ ایسٹ انڈیز یعنی انڈونیشیا پر قبضہ کر لیا جبکہ تھائى لینڈ نے جاپان کے ساتھ ایک معاہدہ دستخط کیا ۔ یہی نہیں جاپان نے برما کو بھی فتح کر لیا تھا اور اب وہ برصغیر کی سرحد تک پہنچ گیا تھا ۔ جاپان چاھتا تھا کہ وہ اپنی فتوحات کے ثمرات سمیٹنا شروع کر دے لیکن یہ سب کچھ ادھورا رہا کیونکہ امریکا نے اپنی معیشت کو جنگی معیشت میں بدل دیا تھا ۔ بڑے پیمانے پر جنگی طیارے، بحری جہاز اور جدید اسلحہ تیار ہونے لگا تھا اور پوری فوج کو حرکت دے دی گئى تھی ۔

جنگِ بحیرہ کورل

[ترمیم]

جنگ عظیم دوم پوری طرح چِھڑنے کے بعد جاپانی بحریہ نے حکومت کو شمالی آسٹریلیا پر چڑھائى کرنے تجویز دی تاکہ اُس خطے کو بحرالکاہل میں جاپان کے جنوبی دفاعی لائن کے خلاف کسی بھی حملے میں استعمال ہونے سے بچایا جاسکے ۔ جنوبی بحرالکاہل میں تعینات جاپانی بحریہ کے چوتھے بیڑے کے وائس ایڈمرل شیگے یوشی انویے نے خیال ظاہر کیا کہ اگر جنوب مشرقی سولومن جزائر، چھوٹے جزیرے تولاگی اور نیو گِنی میں بندر گاہ موریس بے پر قبضہ کر لیا جائے تو یہ مقامات جاپان کے دفاع میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں ۔ مزید یہ کہ اگر نیو کالیڈونیا، فیجی اور ساموا پر قبضہ کر لیا گیا تو امریکا اور آسٹریلیا کے درمیان میں رسد کی فراہمی اور مواصِلاتی رابطے ختم کیے جا سکتے ہیں ۔ جاپانی فوج اور بحریہ نے اپریل 1942 کو آپریشن ایم او کے نام سے جنگی حکمت عملی ترتیب دے دی جس کا مقصد آسٹریلیا اورنیوزی لینڈ کا اتحادیوں سے رابطہ منقطع کرنا اور اپنے حالیہ بحری علاقائى قبضے کا مضبوط طور پر دفاع کرنا تھا ۔ مارچ 1942 تک ، امریکی بحریہ کا کمیونیکیشن سیکورٹی سیکشن ، جاپان کی خُفیہ پیغام رسانی کو تقریباً 15 فیصد تک سمجھ لیتا تھا اور یہ صلاحیت اپریل میں 85 فیصد تک پہنچ گئى تھی ۔ 5 اپریل کو امریکا نے ایک پیغام پکڑا جِسے ڈی کوڈ کرنے پر معلوم ہوا کہ جاپان نے اپنے بحری بیڑے اور دیگر بڑے بحری جہازوں کو وائس ایڈمرل اینوئے کے آپریشن ایریا تک پہنچنے کا حُکم دیا ہے ۔ اِس دوران میں 13 اپریل کو برطانیہ نے بھی آپریشن ایم او کے بارے میں ایک جاپانی پیغام ڈی کوڈ کرکے فوری طور پر امریکا کو دیا جس کے بعد اتحادیوں کو پورا یقین ہوا کہ جاپان مئى کے اؤائل میں جنوب مغربی بحرالکاہل میں بندرگاہ مورس بے پر کوئى بڑی کاروائى کرنے والا ہے ۔ یہ بندرگاہ ، اتحادیوں کی جانب سے جوابی کاروائى کے لیے خاصی اہمیت کے حامل تھی اس لیے امریکا اور دیگر اتحادیوں کے مابین مشاورت کے بعد فیصلہ کیا گیا کہ اُس وقت دستیاب چار بحری بیڑوں کو کورل سی کے محاذ پر روانہ کر دیا جائے ۔ 27 اپریل کو پکڑے جانے والے خفیہ جاپانی پیغامات سے مزید معلومات حاصل ہوئیں ۔ جاپان نے یہ اندازہ لگایا تھا کہ وسطی بحرالکاہل میں صرف ایک امریکی بحری بیڑا ہے جبکہ باقی کے بارے اُسے کوئى معلومات حاصل نہیں تھیں ۔ اپریل کے اؤاخر میں دو جاپانی جاسوس سب میرینزآراو 33 اورآراو 34 نے اُس علاقے کا جائزہ لیا جہاں فوجوں نے اُترنا تھا ۔ انھیں اردگرد علاقے میں کوئى اتحادی بحری جہاز نظر نہیں آیا ۔ دو مئى کو اتحادیوں نے جاپانی فوج کو آتے ہوئے دیکھ لیا تھا ۔ اگرچہ جاپان اپنی منصوبہ بندی کے مطابق آگے بڑھ رھا تھا تاہم خراب موسم کی وجہ سے ائرفورس کے زیرو نامی جنگی طیاروں کو بحری بیڑے پر اُتارنے میں مشکل پیش آرہى تھی جس کی وجہ سے انھیں دو دِن انتظار کرنا پڑا ۔ جاپانی بحریہ تولاگی کی جانب بڑھ رھی تھی اور اتحادیوں نے اپنا نقصان کم رکھنے کے لیے کوئى مزاحمت نہیں کی ۔ امریکی ٹاسک فورس 17 کے کمانڈر ایڈمرل فلیچر اپنی فوج کو دشمن کی نظروں سے اوجھل رکھنا چاھتے تھے تاکہ جب وہ اپنی کاروائى کا آغاز کرے تو تب جوابی حملہ کیا جائے ۔ جاپانی فوج 3 اور 4 مئى کو کامیابی سے تولاگی میں اُتر گئیں ۔ حالانکہ اِس دوران میں ایڈمرل فلیچر نے 4 مئى کو ٹاسک فورس 11 کے ایڈمرل فیچ کے ساتھ اہم ملاقات کے بعدتولاگی کے جنوب میں پہنچنے والی جاپانی فوج پراپنے بحری بیڑے یورک ٹاون سے 40 بمبار طیاروں کے ذریعے حملہ بھی کیا جو جاپانی ایڈمرل شیما کے لیے حیران کن حملہ تھا ۔ اُس وقت جاپان کے دس بحری جہاز پانی میں موجود تھے لیکن اُن کے پاس فضائى طاقت ابھی نہیں پہنچی تھی ۔ اُن پر صبح اور دوپہر میں تین بار حملہ کیا گیا جس میں اتحادیوں کے صرف 3 طیارے تباہ ہوئے ۔ اِن حملوں میں جاپان کا ایک تباہ کُن جہاز اور تین چھوٹے جہاز تباہ ہوئے ۔ 5 مئى کو امریکا کی دونوں ٹاسک فورسز نے مشترکہ حملے کے لیے بہتر فارمیشن ترتیب دی ۔ اب چونکہ جاپانی بحریہ کو اِس علاقے میں امریکی جنگی بیڑوں کی موجودگی کا علم ہو گیا تھا لہذا اپنے جہازوں کو کورل سی میں جانے کا حُکم دیا تاکہ اتحادی افواج کو ڈھونڈ کر ٹھکانے لگایا جائے ۔ 7 مئى کو دونوں افواج نے ایک دوسرے پر مسلسل دو دِن حملے کیے جس میں جاپان کا ہلکا بحری بیڑا شوھو غرقاب ہو گیا جبکہ دوسری جانب امریکا کے تیل بردار بڑے بحری جہاز کو بُری طرح نقصان پہنچا۔ اگلے دِن جاپانی جہاز شوکاکو کو کافی حد تک ناکارہ کر دیا گیا ۔ جاپان نے حملوں میں تیزی لاکر امریکا کے طیارہ بردار بحری بیڑے لیکس ینگٹن کو غرق کرنے اور یورک ٹاون کو بڑی حد تک نقصان پہنچانے میں کامیابی حاصل کى یوں دونوں اطراف کو بھاری نقصان اُٹھانا پڑا۔ جنگ کورل سی چار سے آٹھ مئى 1942 تک لڑی گئى ۔ یہ اُن چار جنگوں میں سے پہلی جنگ تھی جس میں بحری بیڑوں کا نہ تو آمنا سامنا ہوا اور نہ ہی ایک دوسرے پر براہِ راست فائرنگ کی بلکہ بیڑے پر موجود طیاروں نے ایک دوسرے پر حملے کیے ۔ ایک اور تبدیلی یہ تھی کہ اب اتحادیوں نے دفاع کی بجائے جارحیت کی پالیسی اختیار کرلی تھی ۔

جنگ مڈوے

[ترمیم]

جاپان کی تاریخ میں جنگ مڈوے کو بھی کبھی نظر انداز نہیں جا سکتا جو پرل ہا ربر پر حملے کے چھ ماہ بعد 4 سے 7 جون 1942 تک بحرالکاہل میں واقع امریکا کے ایک چھوٹے جزیرے کے آس پاس لڑی گئى تھی ۔ جاپان نے اپنی طرف سے منصوبہ تیار کیا کہ بحرالکاہل کی بڑی بحری طاقت امریکا کے خاتمے کے لیے ضروری ہے کہ ایک فیصلہ کُن حملہ کیا جائے ۔ جاپان اپنی دفاعی سرحدوں کو بڑھاتے ہوئے اُسے مزید امریکا کے قریب کرنا چاہتا تھا ۔ جاپانی بحریہ کی حکمت عملی یہ تھی کہ اگر امریکا پر ایک بھر پور وار کر دیا جائے تو پھر جاپان کے مقابلے کی کوئى طاقت بحرالکاہل میں نہیں رہے گی اور اگر مڈوے علاقے پر قبضہ کر لیا گیا تو جاپانی افواج مشرقی بحرالکاہل میں اہم امریکی بندرگاہ ھوائى کے قریب تر ہو جائیں گی ۔ جاپانی بحریہ اتنی مضبوط ہو چکی تھی کہ وہ کسی بھی وقت کہیں بھی حملہ کرنے کی صلاحیت رکھتی تھی ۔ جاپانی بحریہ کے ایڈمرل یاماموتو کی بُنیادی حکمت عملی یہ تھی کہ امریکا کے بچ جانے والے طیارہ بردار بحری بیڑوں کا خاتمہ کرکے جنگی مہم میں اصل رکاوٹ کا خاتمہ کر دیا جائے ۔ کیونکہ 18 اپریل 1942 کو امریکا کی جانب سے جاپان پر پہلے فضائى حملے سے خطرات بڑھ گئے تھے ۔ یہ حملہ ھونشو کے علاقے پر کیا گیا تھا اور تاریخ میں ڈولٹل ریئڈ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔ اِس فضائى حملے کی منصوبہ بندی لیفٹینٹ کرنل جیمز جیمی ڈولٹل ریئڈ نے کی تھی ۔ ایڈمرل ایسوروکو یاماموتو، امریکا کے ساتھ جنگ لڑنے کے حق میں نہیں تھا لیکن چونکہ فیصلہ کر لیا گیا تھا لہذا حملے کی تیاریاں شروع کردی گئیں ۔ جاپانی جنگی حکمت عملی قدرے پیچیدہ تھی کیونکہ انٹیلیجنس ذرائع سے اندازہ لگا لیا گیا تھا کہ امریکی بحریہ کے پاس بحرالکاہل کے لیے فی الوقت بحری بیڑے یو ایس ایس انٹرپرئز اور یو ایس ایس ھومٹ ہی رھ گئے ہیں کیونکہ ایک ماہ قبل لڑی جانے والی جنگ کورل سی میں بحری بیڑا یو ایس ایس لیکس ینگٹن غرق ہو چکا تھا اور یو ایس ایس یورک ٹاون کو بڑی حد تک نقصان پہنچا تھا لیکن جاپان کا خیال تھا کہ وہ بھی ڈوب چکا ہے ۔ جاپانیوں کو یہ بھی معلوم ہو چکا تھا کہ امریکی بحری بیڑے یو ایس ایس ساراتوگا کی مرمت کی جارہی ہے کیونکہ ایک آبدوز کے حملے میں اُسے نقصان پہنچا تھا ۔ ایڈمرل یاماموتو، کو یہ اندازہ بھی تھا کہ پے درپے شکست کے بعد امریکی فوج کے حوصلے پست ہو چکے ہیں ۔ انھوں نے مڈ وے کے محاذ کی امداد کے لیے پہنچنے والے کسی بھی کمک کو راستے ہی میں نیست و نابود کرنے کی منصوبہ بندی بھی کرلی تھی ۔ لیکن افسوس کہ وہ یہ معلوم نہ کرسکا کہ امریکا نے جاپانی بحریہ کے خفیہ پیغام رسانی کے کوڈ ورڈز معلوم کرلیے تھے ۔ امریکی بحریہ کے بحرالکاہل کے کمانڈر اِن چیف ایڈمرل چیسٹر ڈبلیو نیمٹز نے بھی جنگ کی بھر پور تیاریاں شروع کیں ۔ بحری بیڑے انٹرپرایز اور ھومٹ کے علاوہ بحری بیڑے یورک ٹاون کی مرمت پر دن رات کام ہورہا تھا اور 72 گھنٹوں کی محنت کے بعد ، یہ بیڑا جنگ کے لیے تیار ہو گیا تھا ۔ اِس کے علاوہ ، مڈوے جزیرے پر مختلف نوعیت کے جنگی طیارے تعینات کر دیے گئے ۔ جاپانی جنگی بیڑے شوکاکو کو جنگ کورل سی میں خاصا نقصان پہنچا تھا اور اُس کی مرمت کے لیے کئى ماہ درکار تھے جبکہ طیارہ بردار بیڑا زویے کاکو، جاپان کے کورے بندرگاہ پر لنگر انداز تھا اور وہ ائیر گروپ کی تبدیلی کا منتظر تھا لیکن تربیت یافتہ افراد کی بروقت ٹرینگ مکمل نہ ہونے کی وجہ سے مشکل پیش آرہی تھی ۔ البتہ بمبار طیارے آیچی ڈی تھری اے ون اور ناکاجیما بی فایو این ٹو تیار تھے ۔ جاپان کے وہ طیارے جو نومبر1941 سے زیر استعمال تھے انھیں بہترین حالت میں رکھا گیا تھا ۔ جاپان کی جنگی تیاری کے دوران میں امریکا نے ایک خُفیہ کوڈ جے این 25 کو معلوم کر لیا تھا جو ایڈ مرل نیمٹز کے لیے ایک بڑی کامیابی تھی ۔ امریکی بحریہ کو معلوم ہو گیا تھا کہ جاپان کہاں ، کب اور کس طاقت کے ساتھ حملہ آور ہوگا جبکہ جاپان کو امریکی حکمت عملی اور قوت کا درست اندازہ نہیں تھا ۔ مڈ وے، شمالی بحرالکاہل میں 6.2 کلومیٹر کا ایک جزیرہ ہے جو امریکا کے مغربی ساحل کی دفاع کے لیے ھوایی جزیرے کے بعد دوسرے نمبر پر اہمیت رکھتا ہے ۔ 3 جون 1942 کو رات ساڑھے بارہ بجے امریکی بی 17 طیاروں نے مڈ وے سے اُڑان بھر کر پہلا فضائى حملہ کیا لیکن حملے عین ہدف کو نشانہ بنانے میں زیادہ کامیاب نہیں ہوئے اس لیے کوئى زیادہ نقصان بھی نہ ہوا ۔ 4 جون صُبح ساڑھے چار بجے ، جاپان کے وائس ایڈمرل ناگومو کے طیارہ بردار بحری بیڑے سے پہلا حملہ کیا گیا ۔ ایک اور بھر پور حملہ صبح چھ بج کر بیس منٹ پرکیا گیا جس سے امریکی اڈے کو بھاری نقصان پہنچا ۔ ابتدائى چند منٹوں میں امریکا کے کئى طیاروں کو مار گِرایا گیا ۔ امریکی انٹی ائیر کرافٹ گنز نے بھی کئى جاپانی طیاروں کو گِرایا ۔ 7 جون تک امریکی طیارے مڈوے جزیرے کو ایندھن بھرنے اور حملہ کرنے کے لیے استعمال کرتے رہے ۔ جب جاپانی طیارے کامیاب حملے کے بعد واپس لوٹے تو ایڈمرل ناگومو نے مڈوے پر ایک اور حملہ کرنے کے لیے طیاروں پر اسلحہ لوڈ کرنے کا حکم دیا ہی تھا کہ اِس دوران مشرق کی جانب امریکی بحری جہازوں انٹرپرایز اور ھورنٹ کی موجودگی کی نشاندھی کی گئى ۔ جس وقت یہ پیغام جاپانی بحریہ کو دیا جارہا تھا اُس وقت انٹرپرائز کے کوڈ بریکر نے یہ پیغام انٹرسیپٹ کیا کہ دُشمن کو ہماری موجودگی کا علم ہو گیا ہے ۔ یہ پیغام ملنے کے بعد جہاں ایڈمرل ناگومو نے امریکی بحری جہازوں پر حملہ کرنے کے لیے طیاروں پر لوڈ کیا جانے والا اسلحہ تبدیل کرنے کا حکم دیا ۔ اُسی لمحے انٹرپرئز سے 14 اور یشرک ٹاون سے 12 طیارے ، جاپانی بحریہ پر حملہ کرنے کے لیے محوِ پرواز ہو چکے تھے ۔ چونکہ طیاروں پر اسلحہ لوڈ کرنے کے لیے 30 سے 40 منٹ درکار تھے اس لیے سنبھلنے کا موقع ہی نہ ملا اور حملہ ہو گیا ۔ جاپانی بیڑے کی انٹی ائر کرافٹ گنوں سے بھی جوابی حملہ کیا گیا ۔ اُدھر جاپانی بحری بیڑے ھیریو سے اُڑے طیاروں نے امریکی جہاز یورک ٹاون پر حملہ کر دیا جس سے یورک ٹاون کو شدید نقصان پہنچا اور وہ کام کا نہ رھا ۔ سات جون کو ایک جاپانی سب میرین آیی 168 نے سامنے آکر چار تارپیدو داغے جس میں ایک یو ایس ایس ہممان کو لگا جو دو ٹکرے ہو گیا اور دو تارپیدو بحری بیڑے یورک ٹاون کے لیے تباہ کُن ثابت ہوئے ۔ سب میرین نے اِن کا کام تمام کرتے ہوئے راہِ فراراختیار کرلی ۔ دوسری جانب یو ایس ایس انٹرپرائز سے طیاروں نے جاپانی بحری جہاز ھیروئے پر ایک طاقتور حملہ کیا اور اُسے آگ کے شعلوں میں لپیٹ دیا اور تباہ کن جاپانی جہاز ایسوکازے کو خاصا نقصان پہنچایا ۔ اِسی طرح کے حملے جاپانی کروز موگامے اور میکوما پر بھی کیے گئے جس سے انھیں ناکارہ بنا دیا گیا ۔ اب مڈوے کا محاذ سرد پڑ گیا تھا اور جاپان کے چھ میں سے چار طیارہ بردار جہاز تباہ ہو چکے تھے ۔ جاپان کی بحرالکاہل میں مہم جوئى اور توسیع پسندی کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ چکا تھا جس سے وہ دفاعی پوزیشن میں چلا گیا تھا کیونکہ صرف دو بحری بیڑے شوکاکو اور زوئے کاکو ہی رھ گئے تھے جبکہ دیگر بحری جہاز ریوجو، جونیو اور ھیو مؤثر ہونے کے لحاظ سے دوسرے درجے کے تھے ۔ اِس جنگ میں جاپان پر یہ ایک الزام بھی لگایا گیا کہ اُس نے تین امریکی ہوا بازوں کو گرفتار کرکے بعد میں قتل کر دیا تھا اور یوں جاپانی بحریہ جنگی جرم کا مرتکب پائى گئى ۔ جاپانی مؤقف تھا کہ مذکورہ افراد انتقال کر گئے تھے اور انھیں سمندر برد کر دیا گیا تھا ۔

بحرالکاہل میں جنگی مہمات

[ترمیم]

سنہ 1942 میں جاپان کو بحرالکاہل میں اپنی طاقت منوانے میں کوئى خاص کامیابی نہ ہوئى لیکن اُس کے اتحادی، جرمنی نے یورپ اور دوسرے خطوں میں کئى کامیابیاں حاصل کرلی تھیں ۔ جرمن فوجوں نے جون میں لیبیا پر دوبارہ قبضہ کر لیا تھا لیکن نومبر میں برطانوی فوجوں نے ایک بار پھر انھیں شکست دی ۔ جرمن اور برطانوی فوجوں کے مابین شمالی افریقہ میں بھی جنگ ہورہی تھی کہ اِسی دوران میں اتحادی افواج نے چڑھائى کردی اور امریکی فوجیں الجیریا میں اُتار دی گئیں ۔ جرمنوں نے سینکڑوں ہزاروں یہودیوں کو وارسا سے تریبلنکا کے اذیتی کیمپوں میں منتقِل کرنا شروع کر دیا ۔ برازیل نے بھی جرمنی اور اٹلی کے خلاف اعلانِ جنگ کر دیا تھا۔ جبکہ بحرالکاہل میں امریکی اور آسٹریلوی افواج نے میک آرتھرکی زیرِقیادت ، نیو گِنی میں گونا کے مقام پر لڑائى کا آغاز کر دیا ۔

کوکودا ٹریک کی مہم جوئى اِس سے پہلے ذکر ہو چکا ہے کہ جاپان، مورسبے بندرگاہ پر قبضے کا خواہش مند تھا تاکہ وہاں سے شمال مشرقی آسٹریلیا پر حملہ کرکے بحرالکاہل اور بحر ہند کے مابین روٹ پر کنٹرول حاصل کرسکے ۔ اِس سے پہلے جنگ کورل سی میں جاپان قِسمت آزمائى کرچکا تھا لیکن کامیابی حاصل نہ کرسکا اور جنگ مڈوے نے جاپانی بحریہ کی طاقت کو بڑی حد تک کمزور کر دیا تھا لیکن پھر بھی جاپان اِس علاقے کی اہمیت کے پیش نظر اسے چھوڑ نہیں سکتا تھا۔ اتحادیوں کو بھی اس بات کا عِلم تھا کہ جاپانی فوج ایک بار پھر جنوبی بحرالکاہل کی جانب پیش قدمی کرسکتی ہے لہذا جنوب ۔ مغربی بحرالکاہل خطے کے اعلیٰ اتحادی کمانڈر جنرل ڈگلس میک آرتھر کی قیادت میں نیو گینیا میں عسکری تیاریاں شروع کردی گئیں ۔ اتحادیوں کو اندیشہ تھا کہ جاپان، رابول کے اڈے سے جارحیت کر سکتا ہے ۔ یہ بھی معلوم تھا کہ اگر جاپانی افواج بوندا میں اُتریں گیئں تو کوکودا اور مورسبے بندرگاہیں خطرے میں پڑ جائیں گیں ۔ ایسے میں بندا اور کوکودا کا دفاع ضروری ہو گیا تھا ۔ کوکودا ، مورسبے بندرگاہ کے قریب واقع ایک ایسا ٹریک ہے جہاں دِن کے وقت زیادہ تر گرمی اور حبس جبکہ راتیں ٹھنڈی ھوتی ہیں ۔ سالانہ اوسطاً 5 میٹر یعنی تقریباً 16 فٹ بارش ہوتی ہے اور روزانہ 25 سنٹی میٹر یعنی 10 اِنچ بارش ایک عام سی بات ہے ۔ گھنے جنگلوں کی وجہ سے دشوار گزار چڑھائیاں اور گہری کھائیاں ہیں ، جس کی وجہ سے صرف پیدل ہی سفر کیا جا سکتا ہے ۔ رسد پہنچانا اور وہاں پائے جانے والے بے تحاشہ مچھروں کا مقابلہ کرنادل گردے کا کام سمجھا جاتا ہے ۔ ملیریا ، دستوں کی بیماری، گیلے کپڑے اور چپچپا جسم زندگی اجیرن کردیتا ہے ۔ جاپان کا منصوبہ تھا کہ وہ نیو گینیا اور سولمن جزائر کے قبضہ کیے ہوئے علاقے میں ایک بحری اڈا تعمیر کرے جس کے ذریعے امریکا اور آسٹریلیا کے مابین کسی بھی امداد کو روکا جاسکے ۔ جاپان کی حکمت عملی تھی کہ اس کی جنگل کی سخت تربیت یافتہ فوج ، میجر جنرل تومیتارو ہوریئے کی سرپرستی میں پاپوا کے شمالی ساحل پر واقع گونا اور بونا کے قصبوں کے قریب اتر کر کوکودا پر قبضہ کرلے گی اور پھر وہاں سے اوون سٹینلے رینج تک پہنچ جائے گی جہاں سے مورسبے بندرگاہ نشانے پر آجائے گی ۔ دوسرا حملہ پاپوا کے مشرقی حصے میں خلیج مائلنے سے کیا جائے گا جہاں جاپانی میرین فوج اتاری جائے گی کیونکہ وہاں پر امریکی اور آسٹریلوی فوجیں 28 جون سنہ 1942 سے ایک ائربیس تعمیر کرنے میں مصروف تھیں ۔ یہی اڈا جاپان کے لیے فضائى اور بحری اڈے کے طور پر استعمال کرکے میجر جنرل ہورئیے، جاپانی فضائیہ اور سی بارن فوج کی قیادت کرتے ہوئے بندرگاہ مورسبے پر حملہ کرکے قبضہ کرلے گا ۔ جاپانیوں کے مقابلے میں آسٹریلوی فوجی تعداد میں زیادہ تھی لیکن جنگل کی لڑائى کے لیے تربیت، جدید اسلحہ اور وسائل کی کمی تھی۔اکیس جولائى سنہ 1942 کو 1500 سے 2000 تک جاپانی فوج، پاپوا کے شمال مشرقی ساحل پر اُتر گئی اور بونا، گونا اور سانانندا کے مقامات پر اپنی تنصیبات کی تعمیر شروع کردی ۔ اگلے روز آسٹریلوی فوج کو جاپانیوں کی آمد کا عِلم ہو گیا اور اِس کی اطلاع جنرل میک آرتھر اور جنرل بلامے کو دی گئى ، جس پر دشمن کو مصروف کرنے کی ہدایت جاری کی گئیں ۔ رات کو 40 فوجی ، جاپانی فوج پر حملہ کرکے جنگل میں واپس آ گئے ۔ انہی سلسلہ وار جھڑپوں کے دوران میں دونوں جانب سے افواج کی مختلف بٹالینز جمع ہوتی گئیں ۔ انتیس جولائى 1942 کو علی الصبح ڈھائى بجے 500 جاپانیوں پر مشتمل ایلیٹ فورس نے بھاری مشین گنوں سے مسلح ہوکر آسٹریلن فوج پر بھرپور حملہ کرکے کوکودا کے رن وے پر قبضہ کر لیا ۔ اس شکست کے بعد آسٹریلیا نے اپنی نفری بڑھادی ۔ آسٹریلوی فوج کے39 ویں انفنٹری بٹالین کے کمانڈرلیفٹینٹ کرنل رالپ ہونر نے کوکودا کا علاقہ واپس لینے کا فیصلہ کیا لیکن دو دن کی لڑائى میں اُسے کامیابی نصیب نہ ہوئى ۔ چھبیس اگست تک جاپانی فوج کی تعداد ساڑھے تیرہ ہزار تک پہنچ گئى ۔ اب ان کا ہدف بندرگاہ مورسبے تھا ۔ اگرچہ جاپانی اور آسڑیلوی فوجوں کے مابین اسوراویا ، بریگیڈ ہِل،آوریبیوا اور ایمیتا میں بھی شدید چھڑپیں ہوئیں جس میں آسٹریلیا کو سخت جانی نقصان پہنچایا گیا لیکن طول پکڑتی ہوئى لڑائى جاپان کے حق میں نہیں تھی کیونکہ یوں جنرل ھورئیے کا بندرگاہ مورسبے پر قبضے کا شیڈول متاثر ہورہا تھا۔ سات اگست 1942 سے 9 فروری 1943 تک کی مدت میں جنگ گوادال کینال لڑی گئى ۔ یہ بحرالکاہل میں لڑی گئى شدید جنگوں میں سے ایک تھی جس میں بری، بحری اور فضائى افواج نے حصہ لیا جو جاپان کے خلاف اتحادی افواج کی پہلی جارحیت تھی۔سات اگست سے اتحادی افواج جن میں اکثریت امریکیوں کی تھی، گوادال کینال، تولاگی اور جنوبی سولومن جزائر کے فلوریڈا میں انگیلا سولے علاقے پر اُترنا شروع ہوئیں تاکہ امریکا، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے مابین رابطے توڑنے کی جاپانی منصوبے کو ناکام بنانے کی بھرپور کوشش کی جائے ۔ اتحادی چاھتے تھے کہ گوادال کینال اور تولاگی کو مرکزی اڈوں کے طور پر استعمال کرتے ہوئے جاپان کے راباول اڈے کو ختم کر دیا جائے ۔ اس وقت اتحادیوں کی تعداد، جاپانیوں سے کہیں زیادہ تھی ۔ اتحادیوں نے جاسوسی ذرائع سے معلوم کر لیا تھا کہ جاپانی فوج، ھینڈرسن کے ہوائى اڈے کو دوبارہ قبضے میں لینے کی تیاری کر رہی ہے ۔ جاپانی فوج نے اپنی قوت بڑھانے کے لیے مزید کُمک طلب کی تو یاماموتو نے 38 انفنٹری ڈویژن سے خوراک ، ایمونیشن اور دیگر ضروری سازوسامان سمیت ، گیارہ ٹرانسپورٹ جہازوں کے ذریعے 7٫000 فوجی روانہ کیے ۔ اتحادیوں اور جاپانی افواج کے مابین 25 ستمبر کی شدید چھڑپوں میں تین ہزار جاپانی فوجی ہلاک ہوئے ۔ اُن کی رسد کی فراہمی بھی متاثر ہورہی تھی اور فوجی مسلسل لڑائى لڑکر تھک گئے تھے ۔ نومبر1942 کے دوسرے ہفتے سے جاپانی فوج نے اپنے ہدف کو حاصل کرنے کے لیے کئى حملے کیے لیکن وہ ہنڈرسن فیلڈ کو ناقابل استعمال بنانے میں کامیاب نہ ہو سکے کیونکہ اتحادیوں نے فیلڈ کی اہمیت کے پیش نظر اِس کا بھرپوردفاع کیا ۔ اِن جھڑپوں کے دوران میں دونوں افواج نے ایک دوسرے کے کئى بحری جہاز ڈبوئے، طیارے مار گرائے اورکئى فوجی ہلاک کردیے ۔ جاپانی فوج کے لیے مناسب مقدار میں خوراک کی فراہمی کا مسئلہ مسلسل درپیش تھا اور وہ اتحادی افواج کی تباہ کن بمباری کی وجہ سے وسطی سولومن میں نئے اڈے تعمیر کرنے میں کامیاب نہ ہو سکے تھے ۔ بالاخر جاپانی بحریہ نے کافی غور و خوض کے بعد 12 دسمبر 1942 کو گوداکینال کی مہم ترک کرکے واپسی کا فیصلہ کیا اور جنرل ھاجیمے سوگی یاما اور ایڈمرل اوسامی ناگانو نے ذاتی طور پر شہنشاہ ھیروھیتو کو اِس فیصلے سے آگاہ دی ۔ جاپانی فوج جس علاقے میں بر سر پیکار تھی یہ ایک کٹھن اور دشوار گزار علاقہ تھا ۔ کئى سپاہی ملیریا اور دست کی بیماری میں مبتلا ہو چکے تھے اور خوراک کی شدید قِلت تھی ۔ بلکہ یہاں تک کہا جاتا ہے کہ وہ جڑی بوٹیاں اور پتے کھانے پر مجبور ہو گئے تھے ۔ جاپان اور امریکا کے مابین سلسلہ وار بحری جنگوں نے دونوں ممالک کے اعصاب کو تھکا دیا تھا ۔ دونوں ملکوں نے بہترین بحری طاقت کا مظاہرہ کیا تھا بلکہ یہ کہنا درست ہوگا کہ اُس وقت جاپان کی بحری قوت کا مقابلہ کرنا صرف امریکا ہی کے بس کا کام تھا ۔ امریکا کو اندازہ ہو گیا تھا کہ اگر جاپان کو شکست سے دوچار کرنا ہے تو اپنی بحری قوت کو مزید فروغ دینا ہوگا اور اِس مقصد کے لیے فروری سے نومبر 1943 تک کی درمیانی مدت میں بحری قوت بڑھانے پر بھرپور توجہ دی گئى ۔ وسیع پیمانے پر بحری بیڑے اور بحری جنگی جہازوں کی تیاری سے امریکا کو جاپان پر سبقت حاصل ہوگئى جبکہ جاپانی بحریہ کی کمر خاصی حد تک کمزور ہو چکی تھی ۔ 18 اپریل 1943 کو جاپانی بحریہ کی تاریخ کا ایک المناک واقعہ یہ بھی پیش آیا کہ جب امریکا نے ایک جاپانی پیغام کو ڈى کوڈ کرتے ہوئے معلوم کر لیا کہ ایڈمرل یاماموتو فضائى پرواز کریں گے لہذا امریکی طیاروں پی ۔ 38 کے ایک چھوٹے گروپ نے اڑان بھر کر اس بمبار طیارے کو اپنے گھیرے میں لیا جس میں ایڈمرل یاماموتو سوار تھے ۔ طیارے کو مار گرایا گیا اور یوں بحرالکاہل کے ایک تاریخی جنگجو اس جہان فانی سے رخصت ہو گئے ۔ ایڈمرل یاماموتو، 4 اگست 1884 کو ناگااوکا میں پیدا ہوئے تھے ۔ انھوں نے سنہ 1919 سے 1921 تک ہاورڈ یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی اور سنہ 1925 میں ایک سفارتی مشِن پر امریکا میں رھ چکے تھے ۔ وہ امریکا پر حملے کے مخالف تھے تاہم اسے حکومتی فیصلے کے مطابق پرل ہاربر پر حملے کی منصوبہ بندی کرنی پڑی ۔ جنوری 1943 سے موسم گرما 1944 کے دوران میں نارمنڈی میں اتحادیوں کے قدم جمانے تک کی مدت کو جنگ عظیم دوم کا وسطی عرصہ سمجھا جاتا ہے ۔ اب امریکا اور اس کے اتحادیوں نے جارحانہ پالیسی اختیار کرلی ہوئى تھی ۔ امریکی فوج اور فوجی سازوسامان کی ترسیل میں بہت اضافہ ہو چکا تھا ۔ سوویت یونین نے جرمن جارحیت سہنے کے بعد جوابی کارروائیاں شروع کردی تھیں ۔ قوت توازن امریکا اور سویت یونین کے حق میں جارہا تھا ۔ سویت یونین اور مغربی یورپ کے سروں پرخطرے کی تلوار اب بھی لٹک رہی تھی ۔ چودہ جنوری 1943 میں دس روز کے لیے کاسابلانکا کانفرنس منعقد ہوئى جہاں برطانوی اور امریکی مندوبین کے مابین یورپ اور بحرالکاہل سے متعلق پالیسی امور پرکئى اختلافات سامنے آئے ۔ امریکا، بحرالکاہل میں جاپان کے خلاف کارروائی کی اہمیت پر زور دے رہا تھا جبکہ برطانیہ بحیرہ قذوین میں حکمت عملی مرتب کرنے کا خواہاں تھا ۔ امریکا چاہتا تھا کہ جاپان کے خلاف اپنے حالیہ فتوحات کے بعد اپنے دشمن پر گرفت مزید مضبوط کرلے ۔ امریکی جنرل مارشل سمجھتا تھا کہ جاپان کی کسی بھی سرگرمی کا بروقت جواب دینے کے لیے بڑے بحری بیڑے، مضبوط فضائیہ اور زیادہ قوت کی حامل زمینی فوج کی ہر وقت موجودگی ضروری ہے ۔ اگرچہ جاپان اب دفاعی پوزیشن میں چلا گیا تھا تاہم اس کے بحری بیڑے سے امریکا کے مغربی ساحل پر فضائى حملوں کا خدشہ بدستور موجود تھا کیونکہ امریکا کو علم تھا کہ جاپانی ہتھیار ڈالنے کا نظریہ نہیں رکھتے اور وہ آخری شکست تک اپنی جارحیت جاری رکھیں گے ۔ کاسابلانکا کانفرنس میں اتفاق کیا گیا کہ تمام دشمن قوتوں یعنی ایکسیز پاورز سے کہا جائے گا کہ وہ غیر مشروط طور پرہتھیار ڈال دیں ۔ اسی کانفرنس میں سوویت یونین کی سسلی اور اٹلی پر چڑھائى میں مدد دینے پر بھی رضا مندی ظاہر کی گئى ۔ یورپ میں حالات کچھ یوں بدلتے جا رہے تھے کہ 31 جنوری 1943 کو جرمن فوج نے سٹالن گراڈ میں ہتھیار ڈال دیے تھے کیونکہ نومبر سے جاری محاصرے کی بنا پر بھوک اور غذائى کمی سے ان کی حالت بگڑ چکی تھی ۔ ایک اندازے کے مطابق، بھوک اور خراب موسمی حالات سے 90 ہزار سے زیادہ جرمن فوجی ہلاک ہو چکے تھے ۔ جرمن فیلڈ مارشل وون پاولس کے پاس اس کے سوا کوئى چارہ نہ تھا کہ وہ بھوک کی شکار اپنی فوج کو ہتھیار پھینک دینے کا کہیں ۔ ادھر جرمنی پر اتحادیوں کی دِن رات فضائى بمباری جاری تھی ۔ 12 ستمبر 1943 کو اتحادی افواج ، اٹلی میں داخل ہوئیں ۔

جنگ خلیج لیٹی

[ترمیم]

اگر اتحادیوں کی جانب سے ایک طرف یورپ میں جنگ تیز ہو چکی تھی تو دوسری طرف مشرق بعید میں بھی جاپانیوں اور امریکیوں کے مابین مختلف محاذوں پر جنگ شدت اختیار کرچکی تھی ۔ امریکی زیر قیادت اتحادی فوج اور جاپانیوں کے مابین فلپائن کے جزائر لیٹی، سامار اور لوزون کے آس پاس پانیوں میں 23 سے 26 اکتوبر 1944 تک جنگ لیٹی لڑی گئى ۔ امریکا نے 20 اکتوبر کو اپنی فوج جزیرہ لیٹی پر اِس وجہ سے اُتاردی تاکہ جاپان کو اپنے جنوب مشرق ایشیا کے زیر قبضہ علاقوں سے منقطع کیا جاسکے اور خصوصاً تیل کی ترسیل روک دی جائے ۔ شاہی جاپانی بحریہ نے تقریباً اپنے تمام بحری جہازوں کو اتحادی افواج کے خلاف بر سر پیکار کر دیا تاہم وہ فتح حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہو سکے کیونکہ امریکا کے تیسرے اور ساتویں بحری بیڑے نے جاپانی حملوں کو پسپا کر دیا تھا ۔ جاپان کو اتنا بھاری نقصان اُٹھانا پڑا کہ وہ دوبارہ متوازی طاقت کا حملہ کرنے کی طاقت نہ دکھا سکا۔ اُس کے بڑے بحری جہازوں کے پاس تیل کی کمی تھی جس کی وجہ سے وہ بحرالکاہل کی بقیہ جنگوں کے دوران میں اپنے اڈوں پر ہی رہے ۔ خلیج لیٹی میں چار بڑے معرکے ہوئے جن میں بحر سیبویان، آبنائے سوریگاؤ، کیپ اینگانو اور سامار کی لڑائى شامل ہے ۔ بحرالکاہل مہم کے دوران میں امریکا اور فلپائن کی فوجوں نے جاپانی فوج کے خلاف جنگ لیٹی لڑ کر فتح حاصل کی ۔ یہ جنگ سترہ اکتوبر سے اکتیس دسمبر تک لڑی گئى جس سے تقریباً 3 سالہ جاپانی قبضے کا خاتمہ ہو گیا ۔ فلپائن ، جاپان کے لیے ربڑ کی فراہمی کا ایک بڑا ذریعہ تھا ۔ اِس کے علاوہ بورنیو اور سوماترا کے جانب سمندری گزرگاہوں پر بھی جاپان کا کمانڈ تھا جہاں سے اُسے پیٹرولیم کی ترسیل ہوتی تھی اِس لیے فلپائن پراپنی گرفت مضبوط رکھنا اُس کے لیے بہت اہمیت کا حامل تھا ۔ لیٹی پر فوجی چڑھائى کرنے کے لیے امریکی جنرل میک آرتھر کو بری، بحری اور فضائیہ کا سپریم کمانڈر بنایا گیا ۔ امریکی اور اتحادی افواج، مشہور زمانہ ساتویں بحری بیڑے پر مشتمل تھیں۔سات سو ایک بحری جہازوں میں سے 157 بحری جنگی جہاز تھے اس کے علاوہ بری فوج میں مختلف کیولریز اور انفنٹری ڈویژنز شامل تھیں ۔ سترہ اکتوبر کو اتحادی افواج نے بارودی سرنگوں کی صفائى شروع کی اور لیٹی کے اردگرد مختلف چھوٹے جزائر کی جانب پیش قدمی کا آغاز کیا ۔ بیس اکتوبر کو مسلسل چار گھنٹوں کی بحری گولہ باری کے بعد ، اتحادی ساحلی علاقے میں اُترنا شروع ہوئے اور اِسی دوران میں جاپانی فوج سے جھڑپیں چھڑ گئیں ۔ کئى شب و روز سخت لڑائى کے بعد دونوں اطراف سے بھاری جانی نقصان ہوا ۔ جوبیس اکتوبر کو گھمسان کی فضائى جنگ ہوئى اور دِن رات کی دوطرفہ بمباری مزید چار روز تک جاری رہی ۔ جاپان نے اپنی قوت بڑھانے کے لیے مزید 34 ہزار فوجیوں اور 10٫000 ٹن دیگر سازوسامان کی کُمک سپلائى کی ۔ آٹھ نومبر 1944 کو طوفان آیا اور موسلادار بارش ہوئى ۔ تیز جھکڑ چلنے سے درخت جڑوں سے اکھڑ گئے اور بارش سے مٹی کے تودے گرنے لگے ۔ لڑائى ، اب ساحل سے پہاڑوں تک پھیل گئى تھی ۔ اگرچہ جاپانی فوج نے اتحادی افواج کی سخت مزاحمت کی اور اِس دوران میں کئى حملوں کو پسپا کیا تاہم 10 دسمبر کو اتحادی افواج اورموک شہر میں داخل ہوگئیں ۔ جاپانی فوج کی قوت آہستہ آہستہ کمزور ہوتی جارہی تھی ۔ لہذا انھوں نے فیصلہ کن جنگ لڑنے اور اتحادی افواج کو بھرپور نقصان پہنچانے کے لیے کامیکازے پائلٹوں کے ذریعے خودکش حملے شروع کیے ۔ انھوں نے کئى بحری جہازوں کو تباہ کیا ، جن میں آسٹریلیا کا ایک بحری جہاز ایچ ایم اے ایس آسٹریلیا بھی شامل تھا جس میں 30 آسٹریلوی ہلاک اور 64 زخمی ہوئے ۔ اکتیس جنوری 1945 کو امریکی فوج نے جنوبی لوزون پر اُتر کر منیلا کی جانب پیش قدمی کی ۔

جاپان پر فضائى حملے

[ترمیم]

اگر اتحادی ایک جانب فلپائن میں جاپانیوں سے لڑ رہے تھے تو دوسری جانب انھوں جاپان پر بھی فضائى بمباری شروع کردی ہوئى تھی اور اِن کارروائیوں میں امریکی فضائیہ کے بی ۔ 29 طیاروں کو نہایت کارآمد سمجھا جاتا تھا کیونکہ اِس میں 20٫000 پونڈ بم لے جانے کی صلاحیت تھی اور یہ 2000 میل تک کا راونڈ ٹریپ طے کر سکتا تھا ۔ اِس طیارے نے جاپان میں اسلحہ فیکٹری پر حملہ کرنے کے لیے پہلی پرواز 15 جون 1944 کو چین سے کی ۔ یہ اپریل 1942 کے ڈولٹل فضائى حملے کے بعد جاپانی سرزمین پر دوسرا فضائى حملہ تھا ، جو جاپان پر سٹرٹیجیک بمبارمنٹ کی مہم کا باقاعدہ آغاز تھا ۔ آپریشن میٹرھارن کے نام سے حکمت عملی طے کی گئى تھی کہ بھارت اور چین میں موجود اڈوں سے جاپانی سرزمین اور جاپان کے چین اور جنوب ۔ مشرقی ایشیا میں موجود اڈوں کو نشانہ بنایا جائے گا ۔ تاہم بعد میں 1944 کے اواخر میں امریکی طیاروں نے ماریانا جزائر سے فضائى حملے شروع کردیے۔امریکیوں کا خیال تھا کہ شمال مغربی بحرالکاہل میں واقع چھوٹے جزیروں سے فضائى بمباری زیادہ آسان اور سود مند رہے گی۔ان میں سئپن، تینیان اور گوام کے جزیروں کو خاص اہمیت حاصل تھی ۔ دراصل یہ جزیرے جاپان کے زیرقبضہ تھے اور مئى 1943 میں امریکی بحریہ کے ایڈمرل ارنیسٹ کنگ نے اِسے فتح کرنے کی تجویز دی تھی ۔ وقت گذرنے کے ساتھ امریکی فوج کا یہ احساس مضبوط ہونے لگا کہ بی ۔ 29 طیاروں کے لیے اِن جزیروں پر رن وے کی تعمیر سے حملوں میں آسانی رہے گی ۔ چنانچہ گیارہ جون 1944 کو ان جزائر پر مسلسل چار روز تک بحری اور فضائى حملے کیے گئے ۔ ایک اندازے کے مطابق کئى ہفتوں تک جاری لڑائى میں 3٫000 امریکی جبکہ 24٫000 جاپانی ہلاک ہوئے ۔ تئیس جولائى تک امریکا نے تینوں جزائر پر قبضہ کر لیا تھا جہاں سئپن جزیرے پر بی ۔ 29 طیاروں کے لیے فوری طور پر ائرفیلڈ کی تعمیر شروع کی گئى اور 27 اکتوبر 1944 کو اِس مقام سے جاپانی تنصیبات کو نشانہ بنانا شروع کر دیا ۔ اب جاپانی سرزمین کی تباہی کا آغاز ہو چکا تھا ۔ امریکی فضائیہ نے اپنے حربے بدلتے ہوئے وسیع پیمانے پر بربادی کرنے کی حکمت عملی اختیار کرلی ہوئی تھی ۔ تاریخ بتاتی ہے کہ 9 اور 10 مارچ 1945 کی شب 335 امریکی بی ۔ 29 طیارے فضا میں بلند ہوئے جن میں 279 طیاروں نے تقریباً 1700 ٹن بم برسائے ۔ اِن میں 14 طیارے لاپتہ ہوئے جبکہ مرنے والوں کی تعداد ایک لاکھ بتائى جاتی ہے تاہم بعد میں کیے گئے امریکی سروے میں یہ تعداد 88٫000 بتائى گئی ہے ۔ علاوہ ازیں 41 ہزار افراد زخمی جبکہ دس لاکھ سے زیادہ افراد بے گھر ہوئے تھے ۔ یورپ میں چار سے گیارہ فروری 1945 تک یالٹا کانفرنس منعقد کی گئى جس میں امریکی صدر فرینکلن ڈی روزویلٹ ، برطانوی وزیر اعظم ونسٹن چرچل اور سوویت یونین کے سربراہ جوزف سٹالن نے شرکت کی ۔ گو کہ اِس سربراہ کانفرنس میں زیادہ تر یورپ کے معاملات پر غور کیا گیا ، البتہ سٹالن نے اتفاق کیا کہ وہ جرمنی کے شکست کے 90 دن بعد جاپان کے خلاف جنگ میں شریک ہوگا ۔

اوکیناوا پر قبضہ

[ترمیم]

امریکا نے نہ صرف ٹوکیو پر بے دریغ بمباری کی بلکہ کئى دیگر شہروں کو بھی نشانہ بنایا جہاں فوجی تنصیبات کی تباہی کے ساتھ ساتھ بڑے پیمانے پر عام شہری بھی ہلاک ہوئے ۔ اب امریکی فوج ، جاپانی سرزمین پر اترنے کی منصوبہ بندی کرنے لگی اور اس مقصد کے لیے پہلے اوکیناوا کا انتخاب کیا گیا ۔ اوکیناوا ایک جزیرہ ہے جو جاپان کے مین لینڈ سے 340 میل کے فاصلے پر واقع ہے ۔ اتحادی فوجوں نے اِس علاقے پر قبضہ کرکے اِسے جاپان پر بھرپور جارحیت کرنے کے لیے استعمال کرنے کا منصوبہ بنایا تھا ۔ امریکی افواج نے اترنے سے پہلے اوکیناوا پر 7 روز تک ہزاروں آرٹلری شیلز اور راکٹ فائر کیے اور بے دریغ فضائى بمبارکی ۔ امریکی فوج نے پہلے ھاگوشی اور چنتان کے ساحلی علاقوں پرفوج اُتارنے کا فیصلہ کیا ۔ بحرالکاہل کی سب سے خوفناک جنگ چھڑنے کا وقت آن پہنچا تھا۔ امریکا نے اپنے اِس مشن کو آئس برگ کا نام دیا تھا ۔ حملہ آور امریکیوں کی تعداد ایک لاکھ 83 ہزار تھی جبکہ اپنی سرزمین کی دفاع کے لیے 77٫000 جاپانی موجود تھے جن کی قیادت لیفٹینٹ جنرل میتسورو اوشی جیما کر رہے تھے ۔ یکم اپریل 1945 کو پو پھٹنے سے پہلے جب پہلی بار 60٫000 امریکی فوجی اُترے تو انھیں کسی قِسم کی مزاحمت کا سامنا نہ کرنا پڑا کیونکہ جاپانی فوج نے مکمل جنگ لڑنے کی بجائے دفاعی حکمت عملی اختیار کی ہوئى تھی ۔ اِس سے پہلے کئى جنگوں میں جاپانی فوج بے دھڑک لڑکر جان و مال اور وقت کا ضیاع کرچکی تھی اس لیے روایتی حکمت عملی تبدیل کی گئى ۔ جاپانی فوج نے اپنے آپ کو خفیہ رکھنے کے لیے غاریں اور خندقیں کھودی تھیں ۔ اوکیناوا میں بارش اور بادلوں سے دھند چھائى ہوئى تھی اور دور علاقہ صاف نظر نہیں آرہا تھا ۔ جاپانی فوج کے خود کش حملہ آور طیاروں کامی کازے نے چھ اپریل کو 193 طیاروں سے ساحل پر موجود امریکی بحریہ پرجوابی حملہ کیا ، جس میں چھ بحری جہاز ڈوبے ، سات کو شدید اور چار دیگر کو کم نقصان پہنچا ۔ جاپانی فوج نے اتحادی بحری جہازوں پر حملہ کرنے کے لیے کائتن تارپیڈو بھی تیار کیے تھے ۔ کائتن کا مطلب ہے ، جنت کا رُخ ۔ دوسری جانب اتحادی افواج کی قوت کم ہونے کی بجائے بڑھتی جارھی تھی ۔ جاپانی افواج نے اپنے سب سے بڑے بحری جہاز یاماتو، ایک کروزر اور 8 تباہ کن بحری جہازوں کو خود کش مشن پر روانہ کیا ۔ اِس آپریشن کو تن گو ساکوسین کا نام دیا گیا تھا اور ایڈمرل سیچی ایتو کو اِس مشن کی کمانڈ دی گئى ۔ فورس کے لیے حُکم تھا کہ وہ پہلے ساحل پر موجود اتحادی بحریہ پر حملہ کرے اور پھر ساحل پر اتری ہوئى امریکی فوج سے پنجہ آزمائى کرے ۔ اتحادی افواج کسی بھی جاپانی حملے کے خطرے کے پیش نظر بہت چوکس تھیں اور جونہی جاپانی فوج اپنے حدود سے روانہ ہوئى ، اتحادی افواج کی آبدوزوں نے اُسے معلوم کرکے اپنے کمانڈ کو فوری اطلاع دی ۔ اتحادی جنگی طیاروں نے بغیر کسی وقت ضائع کیے فضائى حملہ کر دیا ۔ اِس حملے میں 300 طیاروں نے حصہ لیا اور مسلسل دو دِن بمباری کرکے جاپان کے دُنیا کے بڑے بحری جنگی جہاز کو اوکیناوا پہنچنے سے قبل 7 اپریل 1945 کو ڈوبو دیا ۔ اِس حملے میں کروزر یاھاگی اور چار دیگر جنگی بحری جہاز بھی تباہ ہوئے ۔ ایک اندازے کے مطابق اِس حملے میں ایڈمرل ایتو سمیت جاپانی شاہی بحریہ کے عملے کے 3700 افراد ہلاک ہوئے تھے ۔ اتحادی افواج نے وسطی اور شمالی جانب سے پیش قدمی شروع کی ۔ جاپانی فوجوں نے مزاحمت شروع کی تو اتحادیوں نے جنوب کی طرف سے بھی اپنی فوجوں کو حرکت دی ۔ کئى روز کی خونریز جھڑپوں کے بعد اتحادی افواج نے شمالی اوکیناوا کے کئى حصوں پر قبضہ کرنے میں کامیاب حاصل کیں ۔ شمال کے ساتھ ساتھ جنوب کی جانب بھی گمسان کی لڑائى ہورہی تھی اور جاپانی افواج ہرخطے پر سخت مزاحمت کا مظاہرہ کررہی تھیں ۔ ہر طرف مشین گنوں کی تھڑ تڑاہٹ ، طیاروں کی گھن گرج اور اور توپوں کے گولوں کی آوازیں گونج رہی تھیں ۔ کہیں کسی کی لاش تو کہیں کوئى زخموں سے چور پڑا تھا ۔ جاپانی فوج اب بھی غاروں اور خندقوں سے اپنی سرزمین پر آئى ہوئى اتحادی فوج پر پے در پے حملے کر رہی تھی ۔ بارہ اپریل کو جاپانی فوجوں نے امریکی فوج کے پورے فرنٹ پر حملہ کر دیا ۔ اب کی بار جاپانیوں نے منظم انداز میں بھاری حملہ کر دیا تھا اور وہ استقامت کا بھرپور مظاہرہ کر رہے تھے بلکہ تاریخ بتاتی ہے کہ اِس موقع پر انتہائى سخت دست بدست لڑائى چھڑ چکی تھی ۔ چودہ اپریل کو جاپانیوں نے ایک اور بھر پور حملہ کیا جس سے امریکیوں نے اندازہ لگا لیا تھا کہ رات کی تاریکی میں جاپانی حملے اُن کے لیے تباہ کُن ثابت ہو رہے ہیں کیونکہ جاپانی فوج نے خوفناک شکل اختیار کرلی ہوئی تھی ۔ امریکا کی 27 ویں انفنٹری ڈویژن نے اوکیناوا کے مغربی ساحل سے پیش قدمی شروع کی ۔ امریکی جنرل ھوج نے 9 اپریل کو بھاری ہتھیاروں سے ایک بڑا حملہ کر دیا ۔ دوسری جانب بحری جنگی جہازوں، کروزر اور تباہ کُن جہازوں نے اپنی فضائیہ کے ساتھ مل کر جاپانی فوج پر بے تحاشہ گولہ باری کی اور بے دریغ بم برسائے ۔ نیپام بموں ، عام بموں، راکٹوں اور مشین گنوں کے مسلسل حملے سے جاپانی فوج کے حوصلے اب ھچکولے کھانے لگے ۔ اگرچہ اِس دوران میں جاپانیوں نے ٹینکوں کے ایک بڑے حملے کو ناکام بناتے ہوئے 22 ٹینکوں کو تباہ اور ساڑھے سات سو امریکیوں کو ہلاک کر دیا تھا ۔ 4 مئى کو جاپانی فوج نے جنرل اوشی جیما کے زیرِقیادت ایک اور جوابی حملہ کیا۔ یہ بحری حملہ ساحل پر موجود امریکی فوج کی پشت پرکیا گیا جس میں 13 ہزار روانڈ فائر کیے گئے تاہم امریکا کے بروقت اور موثر جواب سے یہ حملہ ناکام بنادیا گیا ۔ مئی کے اواخر میں مون سون کی بارشیں شروع ہوئیں جس کی وجہ سے کیچڑ اور پانی نے جنگی کارروائیوں سمیت زخمی فوجیوں کے لیے مہیا کی جانے والی طبی امداد میں روکاوٹیں پیدا کرنا شروع کر دیں ۔ سیلاب سے بھرے راستوں سے زخمی فوجیوں کو نکالنا انتہائى مشکل ہو گیا تھا ۔ جاپانی فوج پر چونکہ یہ حقیقت آشکارا ہورہی تھی کہ اتحادی افواج کے مقابلے میں اُن کی قوت کمزور ہے لہذا مارچ ہی میں اوکیناوا میں جاپانی کمانڈ نے اندازہ لگالیا تھا کہ اب ایشیما ائرفیلڈ اور ملٹری کمپلیکس کا دفاع مشکل ہوتا جارہا ہے اس لیے جزیرے پر موجود تمام ائرفیلڈز کو تباہ کرنے کا حُکم صادر کیا گیا تاکہ اُن کے فوجی تنصیبات دشمن کے ہاتھ نہ آئیں ۔ تاہم ماہِ مئى میں جاپانی فوج نے اپنے فضائى حملے جاری رکھے بلکہ 20 مئى کو 35 جاپانی طیاروں نے بروقت حملہ کیا ۔ ستائیس اور اٹھائیس مئى کی شب مطلع صاف تھا اور چاند پوری آب و تاب کے ساتھ چمک رھا تھا کہ اِس دوران میں جاپانی فضائیہ نے 2 اور 4 طیاروں کی گروپوں کی شکل میں 56 بار حملے کیے اور ایک اندازے کے مطابق اِن حملوں میں 150 طیاروں نے حصہ لیا اور اِسی رات جاپانی خودکش ہوابازوں کامیکازے نے 9 امریکی بحری جہازوں کو تباہ کیا ۔ کہا جاتا ہے کہ اوکیناوا کی جنگ میں 896 بار فضائى حملے کیے گئے جس میں تقریباً 4000 جاپانی طیاروں نے حصہ لیا ۔ جاپانی فوج نے شورے کے محاذ سے پسپائى کی حکمت عملی اختیار کی کیونکہ کونیکل پہاڑ کے مشرقی اور جنوبی حصوں پرجاپانی دفاعی پوزیشن کمزور پڑنے سے یہ فیصلہ کرنا تھا کہ یا تو آخری دم تک تمام وسائل کے ساتھ لڑاجائے اور یا پھر انخلا کیا جائے ۔ جنرل اوشی جیما نے اِس صورت حال پر غور کرنے کے لیے شورے قلعے میں اجلاس بلایا جہاں مختلف پہلووں پر غور کیا گیا اور آخری فیصلہ یہ تھا کہ جنوب کی جانب انخلا کیا جائے ۔ یہ انخلا بہت منظم اور خفیہ انداز میں تھا اور کئى روز تک امریکی فوج اپنے جاسوس طیاروں سے مسلسل نگرانی کے باوجود معلوم نہ کرسکی کہ جاپانی فوج وہاں سے نکل چکی ہے ۔ اوکیناوا میں 5 جون کو بارشوں کا سلسلہ تھم گیا تھا ۔ نئے دفاعی علاقے میں اوشی جیما کو منتقل ہوئے کئى دِن گذر چکے تھے لیکن اسلحے کی قلت اور مواصلاتی رابطوں میں پیش آنے والی مشکلات سے فوج کی کارکردگی پر اثر پڑ رہا تھا اور جب وہ اپنی فوج کے ہمراہ شورے سے منتقل ہو رہے تھا تو اُس وقت اُن کے پاس صرف 20 دِن کا راشن موجود تھا ۔ کہتے ہیں کہ انخلا کے وقت جن زخمی فوجیوں کو ساتھ نہیں لے جایا جاسکا انھیں مارفین کا انجیکشن لگا کر خود ہی ہلاک کیا گیا یا انھیں وہیں چھوڑ دیا گیا تھا ۔ اٹھارہ جون کی شام جنرل اوشی جیما نے جاپانی فوج کے وائس چیف آف سٹاف کوانابے تورا سیرو اور دسویں ایریا آرمی آن تائیوان کے کمانڈر آندو ریکیچی کے نام الوداعی پیغام بھیجا اور پیغام کے آخر میں چند اشعار رقم کیے کہ : جزیر ے کی سرسبز و شاداب گھاس جو سو کھی ہے خزاں کے انتظار میں پھرسے لے جنم ہمارے معززوطن کی بہاروں میں انھوں نے19 جون کو آخری آرڈر جاری کیا اور اپنی زیرِقیادت تمام یونٹوں کی بہادری اور حوصلے کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ چونکہ اسلحے اور مواصلاتی رابطوں کی انتہائى کمی ہے لہذا جو جہاں ہے وہیں پر اپنی حکمت عملی کے مطابق صورت حال کا مقابلہ کرے اور اپنے کسی سینئر افسر کا انتظار نہ کرے ۔ انھوں نے حُکم دیا، آخری دم تک لڑو ۔ اُن کے آخری حکم میں جاپانی فوج کو ہتھیار ڈالنے کا کوئى حکم نہیں تھا ۔ اب جاپانی فوج نے بکھر کر گوریلہ جنگ لڑنی شروع کرلی تھی چونکہ انھیں اپنے جنرل نے ہتھیار ڈالنے کا حکم نہیں دیا تھا لہذا جاپانی فوج کے سامنے دو راستے تھے کہ یا تو لڑکر مرا جائے یا خودکشی کرلی جائے ۔ امریکی فوج شورے پر قبضے کے بعد ناھا کے ائر فیلڈ پر بھی کنٹرول حاصل کرچکی تھی اور جنوب کی جانب پیش قدمی کی جارہی تھی لیکن جاپانی فوج کو پوری طرح سرنِگوں کرنا ابھی بہت دور کی بات تھی ۔ بائیس جون صبح 3 بج کر 40 منٹ پر لیفٹینٹ جنرل اوشی جیما اور جنرل ایسامو چو نے جنوب کی جانب پہاڑ 89 کے نزدیک خود کُشی کرلی ، جسے ھارا کیرے کہتے ہیں یعنی باعزت موت مرنا ۔ اسے سیپوکو بھی کہتے ہیں ۔ سمورائے جنگجووں کے لیے بھی ضروری تھا کہ وہ شکست کو خودکُشی پرترجیح دیں ۔ دوسری جانب امریکی فوج کے لیفٹینٹ جنرل سائمن بی بکنر بھی فوجی محاذ پر نگرانی کے دوران میں جاپانی فوج کے ایک شل کے پھٹنے سے ہلاک ہو گئے تھے ۔ یہ وہی جنرل بکنر تھے جنھوں نے اوشی جیما کو ہتھیار ڈالنے کا پیغام بھیجا تھا ۔ جنگ لڑنے والی فوجوں کے اعلیٰ جنرل اب اِس دُنیا میں نہیں تھے ۔ جاپانی فوج کے کرنل ھیرو میچی یاھارا رھ گئے تھے ۔ تاریخ بتاتی ہے کہ یاھارا نے بھی خودکشی کی اجازت مانگی تھی لیکن اوشی جیما نے یہ کہتے ہوئے اجازت نہیں دی کہ اگر تُم بھی نہ رہے تو پھر اوکیناوا کی جنگ کے حقائق بیان کرنے والا کوئى نہیں ہوگا ۔ یاھارا کو بعد میں امریکی فوج نے جنگی قیدی بنالیا تھا ۔ اوکیناوا کی جنگ کا آخری مرحلہ بہت درد ناک رہا اور انسانی ضیاع کے لحاظ سے یہ بحرالکاہل کی سب سے زیادہ تباہ کن جنگ تھی ۔ اِس جزیرے پرانسانی خون کی ایک دردناک تاریخ موجود ہے جہاں امریکی اور جاپانی افواج کے نقصان پر کئى متضاد اعداد و شمار موجود ہیں ۔ کہا جاتا ہے کہ اِس جنگ میں 50 ہزار امریکی اور ایک لاکھ جاپانی فوج اور اوکیناوا کے عام شہری ہلاک ہوئے تھے جبکہ جزیرے پر موجود عمارتوں میں 90 فیصد تباہ ہو گئی تھیں ۔ یہ خوبصورت جزیرہ 82 روزہ جنگ سے دلدل اور مٹی کے ڈھیر میں تبدیل ہو گیا تھا ۔ خوبصورت جنگل و پہاڑ اور ندیاں اب انسانی بربریت کا عکاس بن چکی تھیں ۔ کچھ فوجی مورخین کا خیال ہے کہ اوکیناوا کی سخت جنگ ، ہیروشیما اور ناگا ساکی پر ایٹمی حملے کا سبب بنی ۔ جاپان میں اب بھی یہ بات متنازع ہے کہ اوکیناوا کی جنگ میں جاپانی فوج نے مقامی باشندوں کو حُکم دیا تھا کہ وہ خودکشیاں کریں تاکہ وہ امریکی قیدی بننے سے بچ جائیں ۔ اوکیناوا پریفیکچرل امن یاد گار عجائب گھر میں بہت سی ایسی نشانیاں موجود ہیں جو اُس وقت کے افسوسناک لمحات کی کہانی بیان کرتی ہیں ۔

ہیرو شیما پر ایٹمی حملہ

[ترمیم]

یورپ میں جاپان کے ساتھی ممالک جرمنی اور اٹلی مسلسل شکست سے دوچار ہو رہے تھے ۔ 27 اپریل کو اتحادی افواج اٹلی کے شہر میلان میں داخل ہوئیں اور وہاں کے فاشسٹ حکمران بینتو میسولینی کو اُس وقت گرفتار کیا گیا جب وہ سویزرلینڈ کی جانب راہِ فرار اختیار کر رہا تھا ۔ اُسے اٹلی کی تحریک مزاحمت اٹالین پارٹیزنز کی فورس نے گرفتار کیا اور اگلے روز اٹھائیس اپریل کو پھانسی دیکر اُس کی اور دیگر افراد کی لاشوں کو میلان شہر کے ایک بڑے چوراہے پر نشانِ عبرت بنانے کے لیے لٹکایا ۔ دوسری جانب اتحادی افواج جرمنی میں داخل ہوکر جنگِ برلن لڑ رہی تھیں ۔ ہٹلر کو میسولینی کے انجام کا علم ہو گیا تھا اور وہ نہیں چاہتا تھا کہ اُس کے ساتھ بھی ایسا ہی سلوک ہو ۔ تاریخ کے اوراق کچھ یوں گواہی دیتے ہیں کہ 30 اپریل 1945 کو ہٹلر نے اپنی محبوبہ ایوا براون کے ساتھ شادی کرنے کے چند گھنٹوں بعد مشترکہ طور پر ایک بنکر میں خودکشی کرلی ۔ مرنے سے پہلے ہٹلر نے کارل ڈونٹز کو جرمنی کا صدر اور جوزف گویبلزکو جرمنی کا چانسلر مقرر کیا ۔ لیکن گویبلزنے یکم مئى کو خودکشی کرلی تھی ۔ دو مئى کو جنگِ برلن ختم ہوئى اور اگلے چند روز میں اٹلی ، ڈنمارک اور ہالینڈ میں موجود جرمن فوجوں نے ہتھیار ڈال دیے ۔ اب مختلف محاذوں پر جرمن فوج کے ہتھیار ڈالنے کی خبریں تواتر کے ساتھ آنے لگیں تھیں اور بالاخرآٹھ مئى کو اتحادیوں نے فتح حاصل کرنے کا اعلان کیا ۔ جرمنی اور اٹلی کی شکست کے بعد اب سہ فریقی اتحاد میں صرف جاپان رھ گیا تھا۔ چھبیس جولائى 1945 کو امریکی صدر ٹرومین اور دوسرے اتحادی ممالک کے رہنماؤں نے پوسٹ ڈیم اعلامیہ جاری کیا ، جس میں جاپان کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کرنے کے بعد پیش کیے جانے والے شرائط کا خاکہ دیا گیا تھا ۔ یہ دراصل جاپان کے لیے ایک الٹیمیٹم تھا ، بصورت دیگر جاپان پر ایک بڑا حملہ کر دیا جائے گا ۔ دو دِن بعد جاپانی اخبارات میں یہ خبریں نمایاں تھیں کہ جاپان ایسے مطالبات کو مسترد کرتا ہے ۔ جاپانی وزیر اعظم کانتارو سوزوکی نے سہ پہر کو ایک اخباری کانفرنس میں کہا کہ ہم پوسٹ ڈیم کانفرنس کے اعلامیے کو نظر انداز کرتے ہیں ۔ شہنشاہ ہیروہیتو ، نے بھی اپنے موقِف میں کوئى تبدیلی نہیں کی اور اکتیس جولائى کو اپنے مشیر کوایچی کیدو کے ذریعے واضح کیا کہ ہر قیمت پر جاپان کا دفاع کیا جائے گا ۔ امریکا دو ماہ قبل ایٹمی حملے کے لیے کیوتو، ہیروشیما، یوکو ہاما اور کوکورا پر ممکنہ ہدف کے طور پر غور کرچکا تھا ۔ فیصلہ یہ تھا کہ ہدف تین میل سے زیادہ قطر کا ہو ، موثر طور پر تباہی مچا سکے اور فوجی مقاصد کا یہ حملہ، اگست سے پہلے نہ کیا جائے ۔ دراصل اِن شہروں پر امریکی فضائیہ کی جانب سے رات کی بمباری ابھی تک نہیں کی گئى تھی کیونکہ اتحادی کمانڈ ، اِن شہروں کا پورا اندازہ لگا کر اس کے لیے مطلوبہ مقدار کے اسلحے کی تیاری کر رہا تھا ، کیونکہ ہیروشیما کے بارے میں باورکیا گیا تھا کہ یہاں جاپانی فوج کا بڑی مقدار میں اسلحہ و گولہ بارود موجود ہے اور یہ بندرگاہی شہر ایک بڑا صنعتی علاقہ بھی ہے ۔ ساحل سمندر پر ہونے کی وجہ سے ہیروشیما کا ریڈار میں آنا آسان تھا، لہذا یہاں بڑے پیمانے پر بربادی و تباہی مچانے کا امکان موجود تھا۔ یہاں اتنے وسیع پیمانے پر حملے کا منصوبہ تھا کہ اُس کے بعد جاپان پوسٹ ڈیم اعلامیے کے مطابق غیر مشروط طور پر ہتھیار ڈال دے ۔ اِس حملے کا مقصد یہ بھی تھا کہ جاپان پر نفسیاتی غلبہ پایا جائے اور یہاں پر حملے میں استعمال ہونے والے اسلحے کی اہمیت کو بین الاقوامی سطح پر بھی تسلیم کروایا جائے ۔ گو کہ ٹوکیو کا شاہی محل بھی ہدف بنایا جا سکتا تھا لیکن درد بھرے مناظر یہاں نہیں بلکہ ہیروشیما میں زیادہ بہتر طور پیدا کیے جا سکتے تھے ۔ جنگ عظیم دوم کے اؤائل میں ہیروشیما میں آبادی 3 لاکھ 81 ہزار تھی لیکن چونکہ یہ فوجی سازوسامان کی پیداوار کا ایک اہم شہر تھا اس لیے جاپانی فوجی نے بڑے پیمانے پر عام شہریوں کا انخلا کیا اور حملے کے وقت یہاں پر کُل آبادی کا تخمینہ 2 لاکھ 55 ہزار لگایا گیا ہے ۔ امریکا نے مین ہٹن منصوبے کے تحت جس ایٹم بم پر تحقیق کی تھی اُس میں برطانیہ اور کنیڈا کا اشتراک بھی تھا ۔ اِس منصوبے کے تحت امریکا، ایٹمی اسلحہ کا تجربہ سولہ جولائى 1945 کو نیو میکسیکو میں ٹرینٹی پرچکا تھا اور اب اِس کے عملی استعمال کا حتمی فیصلہ کر لیا گیا تھا ۔ یہ 6 اگست کی صبح تھی اور ہیروشیما کے عوام چند لمحوں بعد آنے والے دردناک قیامت سے بے خبر اُٹھنے کی تیاری کر رہے تھے ۔ انھیں معلوم نہیں تھا کہ اینکولہ گئے نامی وہ بی ۔ 29 طیارہ جو اُن کے لیے موت کا پیغام لے کر آرہا ہے وہ تینیان جزیرے کے ہوائى اڈے سے اپنی اُڑان بھر چکا ہے ۔ اِس طیارے کی حفاظت کے لیے دو مزید طیارے ہمراہ تھے جنھوں نے جاپانی فضائیہ کے کسی حملے سے بچاؤ کے لیے اقدامات کرنے تھے ۔ طیارہ اپنی مطلوبہ بلندی حاصل کرچکا تھا کیونکہ پائلٹ کرنل پاول تیبتس کے لیے حُکم تھا کہ شکار کے قریب پہنچنے سے پہلے کی بلندی اکتیس ہزار فٹ ہونی چاہیے ۔ سفر کے دوران میں نیوی کیپٹن ولیم پارسنز اور اُن کے معاون سیکنڈ لیفٹینٹ مورس جیپسن نے ایٹم بم میں مطلوبہ تبدیلیاں کیں اور آخر میں سیفٹی پِن نکال کر اُسے حملے کے لیے مکمل طور پر تیار کر لیا تھا ۔ ہیروشیما تک پہنچتے پہنچتے صبح ہوگئى تھی ۔ یہ پیر کی صبح تھی اور سورج نکل چکا تھا ۔ صبح آٹھ بجے کے قریب ہیروشیما کے ریڈار آپریٹر نے اطلاع دی کہ تین طیاروں پر مشتمل ایک چھوٹا قافلہ شہر کی جانب بڑھ رہا ہے ۔ چونکہ امریکی فضائى بمباری میں طیاروں کے بڑے بڑے غول اُڑ کر حملہ آور ہوتے تھے اس لیے چند جہازوں پر کوئى خاص توجہ نہیں دی گئى اور ایمرجنسی ختم کرنے کا سائرن بجایا گیا اور ویسے بھی بمباری رات کو ہوتی تھی اور اب رات کا اندھیرا چھٹ چکا تھا اس لیے لوگوں نے بے خطر ہوکر معمول کے کام کاج شروع کردینے تھے ۔ لیکن طیارہ اینکولہ گئے اُن کے لیے موت کا فرشتہ بن کر چند لمحوں میں انھیں نیست و نابود کر دینے کے لیے تقریباً پہنچ چکا تھا ۔ طیارے پر لدا ہوا نو ہزار سات سو پونڈ وزنی یورینیم سے تیار کردہ لٹل بوائے نامی ایٹمی بم ہیروشیما کیا پوری دُنیا میں تہلکہ مچا دینے کے لیے تیار تھا اور پائلٹ اپنے مقصد کو حاصل کرنے کے لیے پُر عزم تھا ۔ صبح کے 8 بجکر15 منٹ تھے کہ طیارے سے ایٹم بم ، زمین کے رُخ پر چھوڑ دیا گیا اور 43 سیکنڈ بعد انسانی تاریخ کا ایک بہت بڑا دھماکا ہوا ۔ یہ اتنا بڑا دھماکا تھا کہ فضا میں ساڑھے گیارہ میل بلندی پر اینکولہ گئے بھی ہچکولے کھانے لگا ۔ شہر پر دھواں چھا گیا، کسی کو نہ تو کچھ دکھائى دے رہا تھا اور نہ ہی کچھ سمجھ میں آرہا تھا ۔ سب کچھ سخت تپش سے پگھل چکا تھا ۔ نہ تو فضا میں پرندے بچ گئے اور نہ ہی زمین پر انسان و حیوان ۔ جہاں بم گرا وہاں ارد گرد ایک میل کے دائرے میں کوئى عمارت موجود نہ رہی ۔ آگ کے شعلوں کا ایک ایسا جھکڑ چلنے لگا جس نے شاید کسی کو زندہ نہ چھوڑنے کا تہیہ کیا ہوا تھا ۔ آگ نے شہر کا ساڑھے 4 میل تک کا علاقہ اپنی لپیٹ میں لیا ہوا تھا ۔ چونکہ سب کچھ ملیامیٹ ہو چکا تھا لہذا ریڈیو اور ٹیلی گرافک رابطہ نہ ہونے کی وجہ سے خود جاپان کے دوسرے علاقوں کو بھی معلوم نہیں تھا کہ اُن کے ہم وطن کس حال میں ہیں ۔ نہ باپ رہا نہ بیٹا ، نہ ماں رہی نہ بیٹی ۔ اتنی تباہی مچی کہ کوئى آہ و بکا کرنے والا بھی نہیں تھا ۔ دھماکے اور آگ سے اُڑتی گرد و دھول کو ابھی بیٹھنے میں وقت لگے گا ، کیونکہ دھماکے سے اُٹھنے والے آگ اور دھوئیں کا مرغولہ 45000 فٹ بلندی تک پہنچا تھا اور اِس آگ کے گولے کا قطر 1200 میٹر تھا ۔ آرمی کنٹرول اسٹیشن نے ہیروشیما کے بیس سے رابطے کی جدوجہد کی لیکن کوئى کامیابی حاصل نہ ہوئى ۔ فوجی قیادت کی سمجھ سے سب کچھ بالاتر تھا کہ نہ تو کوئى بڑا فضائى حملہ ہوا ہے اور نہ ہی ہیروشیما میں گولہ بارود کا اتنا بڑا ذخیرہ تھا جس سے بڑی تباہی کا امکان ہو ۔ جاپانی فضائیہ کے ایک سٹاف آفیسر کو حُکم دیا گیا کہ وہ طیارہ لے کر سروے کرے اور حقائق معلوم کرکے اطلاع دے ۔ ہیروشیما پر کیا گذری ہے یہ جاننے کے لیے طیارہ تقریباً 100 میل دور فاصلے سے اڑا تھا اور 3 گھنٹوں تک مسلسل پرواز کرتا رہا ، لیکن مخمصے کا شکار یہ طیارہ بغیر کچھ دیکھے واپس لوٹ گیا اور اپنے آقاؤں کو صرف یہ خبر دے سکا کہ وہاں سوائے بادلوں اور دھوئیں کے کچھ نظر نہ آتا ۔ ٹوکیو میں جاپان براڈ کاسٹنگ کارپوریشن کو یہ اندازہ ہو گیا تھا کہ ہیروشیما کا ریڈیو اسٹیشن خاموش ہو چکا ہے ۔ انھوں نے ایک اور ٹیلی فون لائن استعمال کرتے ہوئے رابطہ بحال کرنے کی کوشش کی مگر بے سود ۔ اگرچہ ہیروشیما سے 10 میل دور کے ریلوے سٹیشنوں سے یہاں تک کی رپورٹیں موصول ہوئیں کہ وہاں ایک بڑے دھماکے کی آواز سُنی گئى ہے تاہم تفصیلات معلوم نہیں تھیں ۔ اِسی طرح ریلوے کے محمکے نے ریل روڈ ٹیلی گراف کے بند ہونے کی اطلاع دی ۔ وہاں کیا ہوا تھا اِس کا علم اُس وقت ہوا جب امریکی صدر ٹرومین کا تیار شُدہ پیغام ، واشنگٹن ڈی سی کے مقامی وقت کے مطابق 6 اگست دِن گیارہ بجے ریڈیو پر سنائى دینے لگا ۔ دُنیا کو 16 گھنٹے بعد علم ہوا کہ امریکا ہیروشیما پر حملہ کرچکا ہے ۔ امریکی صدر نے اپنے بیان میں کہا کہ امریکا نے جاپانی شہر ہیروشیما پر قطعی طور پر ایک نئے بم ”ایٹم بم“ سے حملہ کیا ہے ایک محتاط اندازے کے مطابق، پہلے دھماکے ، تپش اور تابکاری سے 70٫000 افراد موت کے منہ میں جاچکے تھے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مرنے والوں کی تعداد ایک لاکھ تک پہنچ گئى اور اگر کینسر اور لمبے عرصے تک بیماری کے بعد مرنے والوں کو شامل کیا جائے تو یہ تعداد دو لاکھ تک پہنچی ۔ ایٹمی حملے کے آرکائیوز ریکارڈ کے مطابق، 60 فیصد افراد آگ کے شعلوں سے جھلس کر ہلاک ہوئے جبکہ 30 فیصد ملبہ گرنے اور 10 فیصد دیگر وجوہات سے موت کے منہ میں چلے گئے ۔ کہا جاتا ہے کہ آگ کے شعلوں نے 16 مربع میل تک کا علاقہ اپنی لپیٹ میں لیا ہوا تھا ۔ بحرالکاہل کی جنگیں ، فلپائن کی جنگ ، اوکیناوا جنگ ، اتحادیوں کے بے رحمانہ فضائى بمباری اور ہیروشیما پر ایٹمی حملے سے جاپان کے جسم پر کئى گہرے زخم آچکے تھے ۔ جاپان لڑکھڑاتے دیکھ کر روس نے بھی اس پر حملہ کر دیا ۔ یہ 9 اگست تھا ۔ وہی تاریخ جب جاپان پر دوسرا ایٹمی حملہ کیا گیا ۔

ناگاساکی پر ایٹمی حملہ

[ترمیم]

ناگاساکی ، جنوبی جاپان میں ایک بڑا بندرگاہی شہر تھا ۔ یہاں بہت صنعتیں موجود تھیں جہاں اسلحہ سازی، جہاز سازی ، آبدوزیں ، دیگر جنگی اور فوجی سازوسامان تیار ہوتا تھا ۔ یہاں کی زیادہ تر عمارتیں لکڑی سے بنی تھیں بلکہ کارخانوں کی عمارتیں بھی لکڑی سے بنائى گئیں تھیں ۔ ایٹمی حملے سے پہلے تک جنگ عظیم دوم کے دوران میں اِس شہر پر کوئى بڑا فضائى حملہ نہیں ہوا تھا ۔ البتہ اگست کے مہینے میں کچھ روایتی بارود سے بھرے بموں سے حملے ہوئے تھے جن میں اپنے دور کے مشہور متسوبشی سٹیل اینڈ آرمز ورکس کے کارخانے کو بھی نشانہ بنایا گیا، لیکن بد قسمتی سے چھ بم ، ناگاساکی میڈیکل اسکول اور ہسپتال پر بھی گِرے ۔ نواگست کی صبح 3 بج کر 47 منٹ پر امریکا کا طیارہ بی ۔ 29 بوک کار سکوارڈن کمانڈر میجر چارلس ڈبلیو سوینی کی قیاد میں تینیان کے ہوائى اڈے سے ایٹم بم لے کر اُڑا ۔ اِس ایٹم بم کا کوڈ نام فیٹ مین رکھا گیا تھا ۔ اِس حملے کا پہلا ہدف کوکورا ، جبکہ دوسرا ہدف ناگاساکی تھا ۔ اِس طیارے کی پرواز سے دو گھنٹے قبل دو طیارے موسم اور حفاظتی اقدامات کے طور پر پہلے اُڑ چکے تھے تاکہ حملہ کرنے میں کوئى رکاؤٹ پیش نہ آئے ۔ کچھ دیر بعد حفاظتی طیاروں نے اطلاع دی کہ دونوں اہداف واضح ہیں اور کسی قِسم کی دھند یا بادل نہیں ہیں ۔ جب حملہ آور طیارہ اُس حد تک پہنچا جہاں پرایٹم بم سے سیفٹی پِن نکال کر اُسے حملہ کے لیے تیار کردینا تھا کہ اِسی اثناء میں معلوم ہوا کہ ایک محافظ طیارہ بگ سٹنک لاپتہ ہو گیا ہے ۔ چونکہ سوینی پہلے ہی اپنے مقررہ وقت سے 30 منٹ لیٹ تھا لہذا محافظ طیارے کے بغیر سفر جاری رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ۔ اور جب یہ حملہ آورطیارہ بی ۔ 29 اپنے پہلے ہدف کوکورا پہنچا تو اُس وقت شہر کے اردگرد 70 فیصد علاقے پر دھواں اور دھند چھائی ہوئی تھی اور مطلع ابرآلود ہونے کی وجہ سے شہر صاف دیکھائى نہیں دے رہا تھا ۔ شہر پر تین چکر لگائے گئے اور اِس دوران معلوم ہوا کہ طیارے میں تیل کی مقدار کم ہوتی جارہی ہے کیونکہ تیل کے ذخیرہ ٹینک سے پائپ میں تیل نہیں آرہا تھا ۔ اب حتمی فیصلہ یہ کیا گیا کہ ناگاساکی پر حلمہ کیا جائے ۔ اِس پر بھی سوچا گیا تھا کہ اگر کوئى مزید دِقت پیش آئی تو ایٹم بم کو واپس لے جاکر بحرالکاہل میں پھینک دیا جائے گا ۔ جاپان کے مقامی وقت کے مطابق ، صبح 7 بج کر 50 منٹ پر ناگاساکی شہر سائرن کی آوازوں سے گونجنے لگا ۔ تاہم 40 منٹ بعد سب اچھا کا سائرن بجا ۔ جاپانیوں نے یہ طیارہ 10 بج کر 53 منٹ پر دیکھا تو ریڈار سروس نے اندازہ لگالیا کہ شاید سراغرسانی کرنے والا کوئى جاسوس طیارہ ہے ۔ اِن بے خبر جاپانیوں کو علم نہیں تھا کہ ہیروشیما کے تین روز بعد ، ایک اور قیامت ٹوٹنے والی ہے ۔ تاریخی اوراق میں ذکر ہے کہ دِن کے گیارہ بج کر ایک منٹ پر حملہ آور طیارے نے شہر پر چھائے ہوئے بکھرے بادلوں میں سے ناگاساکی شہر کو دیکھ لیا تھا ۔ اب شکاری نے اپنے شکار پر جھپٹنا تھا ۔ اِسی لمحے جہاز کے سفاک کپتان نے بٹن دبایا اور فیٹ مین طیارے سے نکل کر شہر کے صنعتی علاقے کی جانب تیزی سے گرنے لگا ۔ یورنیم ۔ 239 پر مشتمل یہ ایٹم بم 14.1 پونڈ یعنی 6.4 کلوگرام کا بتایا جاتا ہے ۔ تینتالیس سیکنڈ بعد ناگاساکی شہر کے اوپر 1٫650 فٹ کی بلندی پر فضا میں ایک انتہائى خوفناک اور زوردار دھماکے سے فیٹ مین پھٹ گیا ۔ یہ دھماکا 21 کلو ٹن ٹی این ٹی کے برابر تھا ۔ ایٹمی سائنس دانوں کے مطابق، یہ دھماکا ہیروشیما کے دھماکے سے کہیں بڑا تھا ۔ اور آپ یقیناً سن کر حیران ہوں گے اِس سے پیدا ہونے والی تپش کی درجہ حرارت 3٫900 ڈگری سیلسیس یا 7٫000 ڈگری فارن ہائٹ تھی اور اس سے پیدا ہونے والے آگ کے شعلوں کی رفتار 1005 کلومیٹر فی گھنٹہ تھی ۔ ناگاساکی کا بڑا علاقہ اب جل کر راکھ کا ڈھیر بن چکا تھا اور جہاں دھماکا ہوا تھا وہاں ایک مربع کلومیٹر کے علاقے پر انسان و حیوان موقع ہی ہلاک ہوئے اور آگے شعلے 10٫000 فٹ تک کے علاقے پر پھیل چکے تھے ۔ تقریباً 20٫000 عمارتیں مکمل یا بڑی حد تک تباہ ہو چکی تھیں ۔ صرف 12 فیصد مکانات بچ گئے تھے ۔ ایک اندازے کے مطابق ، اِس ایٹمی حملے میں 40٫000 افراد ہلاک اور 60٫000 زخمی ہوئے تھے اور جنوری 1946 تک اندازہ لگایا گیا تھا کہ 70٫000 افراد ہلاک ہو چکے تھے ۔

جاپان کی شکست

[ترمیم]

پندرہ اگست 1945 کو جاپان کے شہنشاہ ہیرو ہیتو نے ریڈیو ٹوکیو پر قوم سے خطاب کرتے کہا کہ اُن کا مُلک پوسٹ ڈیم اعلامیے کو قبول کرتا ہے ۔ اِس اعلامیے میں جاپان سے کہا گیا تھا کہ وہ غیر مشروط طور پر ہتھیار ڈال دے جو جاپانی فوج کے لیے یہ بہت بڑے صدمے کی بات تھی ۔ اِس فیصلے کی مخالفت کرتے ہوئے کچھ فوجیوں نے 14 اور 15 اگست کی رات بغاوت برپا کی ۔ وہ اتحادیوں کے سامنے کسی بھی صورت میں ہتھیار ڈالنے پر آمادہ نہیں تھے اور وہ یہ فیصلہ واپس لینے پر بضد تھے ۔ وہ چاھتے تھے کہ ٹوکیو شاہی محل پر قبضہ کرکے شہنشاہ کو محل میں نظر بند کر دیں ۔ اِس کاروائى کے دوران میں شاہی گارڈ کے لیفٹینٹ جنرل تاکیشی موری ہلاک ہوئے ۔ لیکن یہ باغی عناصر پوری فوج میں حمایت حاصل نہیں کر پا سکے اور بغاوت ناکام ہوئى ۔ کئى فوجی اِس افسوس ناک لمحے کو برادشت نہ کرتے ہوئے خودکشی کر گئے اور کئى نے 15 اور 16 اگست کو 100 سے زیادہ امریکی جنگی قیدوں کو قتل کر ڈالا ۔ برطانوی اور آسٹریلوی کے فوجیوں کو بھی قید کے دوران میں ہلاک کیا گیا ۔ ایٹمی حملے جاپان کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا چکے تھے ۔ امریکن ملٹری ہسٹری کے مطابق ، اگرچے فضائى حملوں نے جاپان کی جنگی صلاحیت کو خاصا کمزور کر دیا تھا لیکن پھر بھی ہتھیار ڈالتے وقت جاپان کے پاس 2٫000٫000 فوج تھی ۔ گو کہ جاپانی فوج نے دفاعی پوزیشن اختیار کرلی ہوئى تھی لیکن وہ ایک سخت زمینی جنگ لڑنے کے لیے تیار تھی اور اِس کے علاوہ جاپان کے پاس 3٫000 لڑاکا طیارے بھی تھے ۔ جاپانی شاہی بحری بیڑے کے کمانڈرایڈمرل ایسوروکو یاماموتو نے جنگ شروع ہونے کے موقع پر جذباتی ہوتے ہوئے اُنگلی اُٹھا کر کہا تھا ، ” یہی کافی نہیں کہ ہم گوام ، فلپائن یا یہاں تک کہ ہوائی یا سان فرانسِسکو کو فتح کریں بلکہ ہمیں اِس سے بھی آگے واشنگٹن تک مارچ کرنا چاھیے اور معاہدے پر دستخط وائٹ ہاوس میں ہونے چاھیں“ ۔ لیکن جاپانی ایسا نہ کرسکے اور اب اُن کی نہیں بلکہ امریکا کی مرضی سے جنگ ختم ہونے کا معاہدہ ہوگا ۔ جاپان کو دراصل مسلسل دو سال سے مختلف محاذوں پر شکست کا سامنا رہا ۔ جنوب مغربی بحرالکاہل ، ماریاناس مہم ، فلپائن مہم اور سائپن میں ناکامی سے جاپان کو کافی نقصان ہوا اور پھر آؤجیما اور اوکیناوا جزائر پر امریکی قبضے سے اتحادی افواج جاپانی سرزمین پر داخل ہو چکی تھیں ۔ چونکہ جاپان کے پاس اپنے قدرتی وسائل انتہائى کم ہیں اس لیے وہ زیادہ تر خام مال ایشیائى ممالک سے درآمد کرکے اپنی ضرورتیں پوری کرتا ہے لہذا جنگ کی صورت میں خام مال کی درآمد میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ۔ اور پھر اتحادیوں کی جانب سے جاپان کے بڑے کارخانوں پر فضائى بمباری سے بھی بہت نقصان ہو چکا تھا ۔ آخر میں ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹمی حملہ جاپان کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوا ۔ اُس وقت کے جاپانی وزیر اعظم کنتارو سوزوکی ، کی کابینہ ہتھیار ڈالنے دینے کی مخالف تھی ۔ وہ چاھتے تھے کہ جنگ جاری رہے کیونکہ جاپانیوں کے لیے شکست تسلیم کرنا ایک ایسا فعل تھا جس کا انھوں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا ۔ اِس کی وجہ یہ تھی کہ گذشتہ 2000 سالوں میں نہ تو کوئى جاپان پر جارحیت کرسکا تھا اور نہ ہی اُسے کسی جنگ میں شکست ہوئی تھی ۔

روس کا منچوریا پر حملہ

[ترمیم]

امریکی ایٹمی حملے سے قبل تک ، جاپان نے سوویت یونین کے توسط سے امریکا اور اتحادیوں کے ساتھ امن کی راہ نکالنے کی کوشش کی لیکن کامیابی نہیں ہوئى کیونکہ سوویت یونین خود اتحادیوں سے وعدہ کرچکا تھا کہ جرمنی کی شکست بعد وہ جاپان کے خلاف اعلان جنگ کر دے گا حالانکہ سوویت یونین اور جاپان کے مابین عدم جارحیت کا معاہدہ بھی ہوا تھا ، لیکن بعد میں سوویت یونین نے اِس معاہدے کی تجدید نہیں کی ۔ جاپان کو یہ خدشہ تھا کہ ممکن ہے امریکا اور مغربی طاقتوں نے جاپان کے خلاف جنگ شروع کرنے کے لیے سوویت یونین کو کچھ رعایتوں کی پیش کش بھی کی ہو۔ لہذا جاپان کے وزیر خارجہ شیگی نوری توگو، نے سوویت یونین پر زور دیا کہ وہ جاپان کے معاملے میں غیر جانبدار رہے ۔ جاپان کو خدشہ تھا کہ روس کسی بھی وقت منچوریا پر ایک بڑا حملہ کر سکتا ہے اس لیے وزیرخارجہ توگو نے ماس کو میں جاپان کے سفیر نااُوتاکے، کو 30 جون 1945 کو اِس پیغام کے ساتھ بھیجا : ” عزت مآب شہنشاہِ جاپان کا فرمان ہے کہ دونوں مُلکوں کے مابین لڑائى دونوں مُلکوں کے عوام کے لیے نقصان دہ ہے لہذا دلی خواہش ہے کہ اِس کشیدگی کو فوری ختم کیا جائے اور جہاں تک انگلینڈ اور امریکا کا یہ اصرار ہے کہ جاپان غیر مشروط طور پر ہتھیار پھینک دے تو جاپان کے پاس سوائے اِس کے کوئى متبادل نہیں کہ وہ اپنے مادرِ وطن کی عزت و ناموس کے لیے پوری طاقت کے ساتھ لڑے“ ۔ ہیرو شیما پر 6 اگست کو ایٹمی حملے کے تین دِن بعد 9 اگست کو صبح 4 بجے یہ اطلاع ٹوکیو پہنچی کہ سوویت یونین نے غیر جانبداری کے معاہدے کوتوڑتے ہوئے جاپان کے خلاف اعلان جنگ کر دیا ہے اور اُس کی فوجوں نے منچوریا میں جاپان کی کٹھ پتلی حکومت مانچو کواو پر حملہ کر دیا ہے ۔ یہ جاپان کے لیے ہیروشیما کے بعد دوسرا بڑا دھچکہ تھا ۔ وزیر اعظم سوزوکی نے شہنشہاہِ جاپان سے ملاقات کرنے کے بعد صبح ساڑھے دس بجے سپریم کونسل کا اجلاس بلایا ۔ ابھی اجلاس جاری تھا کہ دِن گیارہ بجے یہ خبریں آئیں کہ امریکا نے ناگاساکی پر دوسرا ایٹمی حملہ کر دیا ہے ۔ ڈھائى بجے ہونے والے جاپانی کابینہ کے مکمل اجلاس میں زیادہ تر بحث ہتھیار پھینکنے کے معاملے پر ہوتی رہی لیکن تین گھنٹوں کی بحث و مباحثے کے بعد بھی کوئى اتفاقِ رائے نہ ہو سکا ۔ سہ پہر چار بجے سے رات دس بجے تک ایک اور اجلاس ہوا لیکن پھر بھی کوئى نتیجہ برآمد نہ ہوا ۔ 8 اور 9 اگست 1945 کی رات، وزیر اعظم سوزوکی اور وزیر جارجہ توگو، نے شہنشاہ سے ملاقات کی اور وزیرِ جنگ کوریچی کا آنامی ، کا سپریم کونسل کے اجلاس سے تیار کردہ چار نکاتی مجوزہ مسودۀ پیش کیا ۔ 10 اگست کی صبح دو بجے وزیر اعظم سوزکی نے شہنشاہ پر فیصلہ چھوڑ دیا کہ وہ کیا آخری فیصلہ کرتے ہیں ۔ کچھ تاریخی اوراق سے معلوم ہوا ہے کہ شہنشاہ نے کہا کہ جنگ جاری رکھنا ہماری قوم کی تباہی ، خون خرابا اور ظلم کے سواء کچھ نہیں ۔ میں اپنے معصوم عوام کو مزید مصیبت جھیلتے ہوئے نہیں دیکھ سکتا ۔ گو کہ یہ ناقابل برداشت ہے کہ جاپان کی بہادر اور وفادار فوج کسی کے سامنے غیر مسلح ہو ۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ہم ناقابل برداشت کو برداشت کریں ۔ میں اپنے غم کے آنسو پیتے ہوئى وزیرِ خارجہ کے تیار کردہ خاکے کی بنیاد پر اتحادیوں کے اعلان کی منظوری دیتا ہوں ۔ پندرہ اگست 1945 کو دوپہر 12 بجے شہنشاہِ جاپان کا پیغام ریڈیو پر نشر ہوا ۔ انھوں نے اپنی خطاب میں کہا کہ ہماری جراءت مند فوج کی بہادری اور عوام کے پُرخلوص خدمات کے باوجود حالات ایسا رُخ اختیار کر گئے ہیں جو جاپان کے حق میں نہیں ۔ مزید یہ کہہ دشمن نے ایسے ظالمانہ بموں کا استعمال شروع کیا ہوا ہے کہ اُن سے ہونے والی تباہی ان گِنت ہے ۔ اگر ہم جنگ جاری رکھتے ہیں تو اِس سے جاپانی قوم کے لیے مزید تباہی پیدا ہوگی ۔ ہم نے لاکھوں کروڑوں عوام کو بچانا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ہم نے اتحادیوں کے مشترکہ اعلامیہ کو قبول کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ سترہ اگست کو شہنشاہِ جاپان نے وزیر اعظم سوزوکی کو ہٹا کر اپنے چچا پرنس ہیگاشی کونی ناروہیکو، کو 43 ویں وزیر اعظم کی حثیت سے ذمہ داریاں سونپ دیں تاکہ مزید بغاوت یا قاتلانہ حملوں کو روکا جاسکے ۔ اِسی طرح وزیر خارجہ توگو کو بھی ہٹایا گیا اور اُن کی جگہ یہ فرائض ماموروشیگے میتسو کو دے دی گئیں ۔ شیگے متسو کی ایک ٹانگ مصنوعی تھی اور وہ لنگڑا کر چلتا تھا اور اُن کے ایک ہاتھ میں چھڑی ہوتی تھی کیونکہ 29 اپریل 1932 کو کوریا کی آزادی کے ایک کارکُن یون بونگ۔گل نے اُن پر بم حملہ کیا تھا جس سے اُن کی ایک ٹانگ کٹ گئى تھی ۔ اُس وقت وہ شنگھائى میں جاپان کے وزیر مقرر تھے ۔ جاپان کی فوجیں اب بھی سوویت اور چینی افواج کے خلاف لڑ رہی تھیں ۔ جنگ جاری تھی اور انھیں جنگ بندی اور ہتھیار ڈالنے پر مجبور کرنا تحال ممکن نہیں تھا ۔ یہ لڑائى ستمبر کے اوائل تک چلتی رہی جب سوویت یونین کے افواج نے کوریل جزائر پر قبضہ کر لیا ۔

ہتھیار ڈالنے کی تقریب اورجاپان پر قبضہ

[ترمیم]

جاپان کی شکست کے دستاویزات پر جاپان ، امریکا ، سوویت یونین ، چین ، آسٹریلیا ، کینڈا ، فرانس ، ہالینڈ اور نیوزی لینڈ نے دستخط کیے ۔ دستاویزات پر دستخط کی تقریب 2 ستمبر 1945 کو خلیجِ ٹوکیو میں لنگرانداز امریکی بحری بیڑے یو ایس ایس میسوری پر منعقد کی گئى جو 23 منٹ تک جاری رہی اور اِسے دُنیا بھر میں نشر کیا گیا ۔ جاپان کے وزیر خارجہ مامورو شیگے میتسو ، نے شہنشاہِ جاپان اور جاپانی حکومت کی جانب سے دستخط کیے ۔ دستاویزات پر دستخط کرنے والا وہ پہلا فرد تھا اِس کے بعد جاپانی فوج کے چیف آف آرمی جنرل سٹاف، جنرل یوشی جیرواُمیزو اور تیسرے نمبر پر امریکی جنرل ڈگلس میک آرتھر نے دستخط کیے ۔ معاہدے میں درج تھاکہ : جاپانی افواج جہاں کہیں ہیں وہ اتحادی افواج کے سامنے غیر مشروط طور پر ہتھیار پھینک دیں ۔ جاپانی افواج جہاں کہیں ہیں اپنی مخالفانہ سرگرمیاں ترک کر دیں تاکہ بحری جہازوں ، طیاروں ، فوجی اور شہری تنصیبات کو نقصان نہ پہنچے ۔ جاپانی حکومت اپنے جنرل ہیڈکوارٹرز کو حُکم دے کہ وہ اتحادی افواج کے تمام جنگی قیدیوں اور زیر حراست شہریوں کا آزاد کرے چونکہ جاپانی فوج بحرالکاہل، جنوب مشرقی ایشیا اور چین سمیت کئی علاقوں میں بکھری ہوئى تھی اس لیے اُن محاذوں پر یہ اطلاع نہ پہنچ سکی کہ اُن کے مُلک نے ہتھیار ڈال دیے ہیں ۔ کئى جاپانی افواج کو یقین نہیں آرہا تھا اور وہ اِسے اتحادی افواج کا پروپیگنڈہ تصور کرکے مسترد کرچکے تھے اور کئى نے تو شکست کی وجہ سے اپنے مُلک واپسی کو بالکل ترجیح ہی نہیں دی ۔ ایک اندازے کے مطابق ، جاپان کے 5٫400٫000 فوجیوں اور 1٫800٫000 بحری فوجیوں کو جنگی قیدی بنالیا گیا تھا جن میں 60٫000 جنگی قیدی چین کے پاس تھے ۔ یہ جاپان کی تاریخ میں پہلی بار تھا کہ غیر مُلکی افواج اُس کی سرزمین پر قبضہ کررہی ہیں ۔ جنگ کے دوران میں اتحادی افواج نے منصوبہ بنایا تھا جس طرح مقبوضہ جرمنی کے حصے بخرے کرکے اتحادیوں کے مابین بانٹ دیا گیا وہی سلوک جاپان کے ساتھ بھی کیا جائے گا ۔ تاہم امریکا نے آخری منصوبے میں جاپان کو اپنے زیرِ قبضہ رکھا اور ساتھ ساتھ جنوبی کوریا ، اوکیناوا اور آمامی جزائر پر بھی اپنا تسلط رکھا ۔ جبکہ سوویت یونین کو شمالی کوریا ، سخالین اور کوریل جزائر کا قبضہ دیا گیا ۔

جاپان کے جنگی جرائم

[ترمیم]

جاپان اُنسویں صدی سے لے کر بیسویں صدی کی وسط تک کئى جنگی جرائم کا مرتکِب ہوا ۔ جن میں عام شہریوں کا استحصال اور ہلاکت، جنگی قیدیوں سے ناروا سلوک اور دُشمن فوج کے ساتھ لڑتے ہوئے نیوریمبرگ چارٹر کے معین کردہ قوانین کی خلاف ورزی شامل تھی ۔ اگرچے جاپان نے جنیوا کنونشن پر دستخط نہیں کیے تھے تاہم جنگ عظیم دوم کے دوران میں اُس کی فوج نے خود اپنے فوجی قوانین کی خلاف ورزی کی ۔ جاپانی فوج نے سن 1899 اور سن 1907 کے ہیگ کنونشن جیسے بین الاقوامی معاہدوں کی پاسداری بھی نہیں کی جس میں کیمیائى ہتھیاروں کے استعمال پر پابندی ہے اور جنگی قیدیوں کو تحفظ فراہم کیا گیا ہے ۔ تاریخ دان چالمرز جونس لکھتے ہیں کہ جاپان نے چین، فلپائن ، ملایا، ویت نام، کمبوڈیا، انڈونیشیا اور برما میں تین کروڑ افراد کو ہلاک کیا، جن میں چینوں کی تعداد دو کروڑ تیس لاکھ تھی ۔ لاکھوں افراد سے جبری مشقت لی اور مقبوضہ علاقوں کے اثاثوں اور وسائل کو لوٹا ۔ جنگی محاذوں پر لڑنے والے جاپانی فوجیوں کی جنسی تسکین کے لیے عورتوں کا بے دردی سے استحصال کیا ۔ اِن سب واقعات میں سب سے دردناک واقعات چین کے اُس وقت کے دار الحکومت نان کینگ میں رونماء ہوئے جہاں جاپانی فوج نے عام شہریوں کا انتہائى سفاکانہ انداز میں قتل عام کیا ۔ مشرقی بعید کے لیے قائم فوجی ٹربیونل جِسے ٹوکیو ٹرائل بھی کہتے ہیں کی تحقیقات کے مطابق سنہ 1937–38 میں جاپانی فوج نے دو لاکھ عام شہریوں اور جنگی قیدیوں کا قتل عام کیا ۔ جاپان کے خصوصی فوجی یونٹوں نے چین میں عام شہریوں اور جنگی قیدیوں پر تجربات کیے ۔ انسانی جسِم کے اندر کے نظام کا جائزہ لینے کے لیے بغیر بے ہوشی کے انھیں چیرلیا جاتا تھا یا پیوند کاری کے لیے اعضاء کاٹ لیے جاتے تھے اور یا زندہ انسان کے اعضاء کو سخت سردی کے موسم میں منجمد کر دیا جاتا تھا ۔ کیمیائى ہتھیاروں کے اثرات دیکھنے کے لیے کئى تجربات کیے گئے ۔ اِن میں زیادہ تر تجربات جاپانی فوج کے بدنام زمانہ یونٹ 731 نے کیے جس کے سربراہ شیروایشی تھے جو ایک مائیکروبائلوجسٹ اور اِس یونٹ کے لیفٹینٹ جنرل تھے ۔ انھیں قابض امریکی فوج نے تجربات سے حاصل کردہ کیمیائى ڈیٹا دینے کے بدلے میں معاف کیا اور کوئى جنگی مقدمہ نہیں چلایا، بلکہ کہا جاتا ہے کہ بعد میں اُسے کیمیائى ہتھیاروں پر مزید تحقیق کے لیے امریکا بلوایا گیا ۔ لیکن اُس کی بیٹی کا کہنا تھا کہ وہ جاپان ہی میں رہے اور 67 کی عمر میں سنہ 1959 میں گلے کے کینسر کی وجہ سے انتقال کر گئے ۔ جاپانی فوج پر یہ الزام بھی تھا کہ اُس کے فوجیوں نے جنگی قیدیوں کا گوشت بھی کھایا اور کئى کو اِس مقصد کے لیے گولی مار کر ہلاک کیا گیا ۔ جنگی جرائم کے ٹربیونل میں کئى سابق فوجیوں نے گواہی دے کہ وہ ایسے واقعات کے چشم دید گواہ ہیں کہ جاپانی فوج نے انسانی گوشت کھایا ۔ اُن میں ہندوستان کے ایک جنگی قیدی حوالدار چنگدی رام کا بیان بھی ہے جس میں انھوں کہا ہے کہ 12 نومبر 1944 کو جاپانی فوجیوں نے اتحادی فوج کے ایک گرفتار پائلٹ کا پہلے گلہ کاٹا اور بعد میں اُس کے اعضاء بھون کر کھائے ۔ اِسی طرح ایک حلفیہ بیان لانس نائیک حاتم علی کا بھی ہے جو سنہ 1947 میں برصغیر کی آزادی کے بعد پاکستان کا شہری بنا ۔ علی نے نیوگِنی میں ہونے والے واقعات کے بارے میں کہا کہ جاپانی فوج ہر روز ایک قیدی کو باہر نکال کر لے جاتی تھی اوراُسے قتل کرکے کھا جاتے تھے ۔ اُن کے مطابق ، اِس طرح سے سو قیدیوں کو قتل کیا گیا ۔ جاپانی فوج نے مقبوضہ علاقوں میں جبری مشقت لینے کے لیے ہزاروں لاکھوں لوگوں کو غلام بنایا ۔ تاریخ دانوں کی ایک مشترکہ تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ صرف چین میں ایک کروڑ سے زیادہ افراد سے جبری مشقت لی گئى ۔ اِسی طرح برما ۔ سیام ریلوے لائن کی تعمیر کے دوران میں دس لاکھ عام شہری اور جنگی قیدی ہلاک ہوئے ۔ انڈونیشیا کے جاوا جزیرے پر چالیس لاکھ سے زیادہ افراد سے جبری مشقت لی گئى ۔ یہی نہیں جاپانی فوج نے انڈونیشیا اور چین کے کئى علاقوں میں مقامی عورت کی آبرویزی کی اور خواتین کو جنگی محاذوں پر جبراً بھیج کر فوجیوں کے جنسی حوس کا نشانہ بنایا گیا ۔ ایسی خواتین جنگی تاریخ میں کمفرٹ وومن کے نام سے پہچانی جاتی ہیں اور اُن میں کئى نے بعد میں جاپانی حکومت پر ہرجانے کا دعویٰ بھی کیا ۔

مشرقی بعید کے لیے بین الاقوامی فوجی ٹربیونل

[ترمیم]

یہ ٹربیونل ، ٹوکیو ٹرائل کے نام سے بھی پہچانا جاتا ہے ۔ اِس عدالت نے 3 مئى 1946 سے اپنے کام کا آغاز کیا ۔ عدالت میں جج کے فرائض سر انجام دینے والوں کا تعلق آسٹریلیا ، کنیڈا، چین ، فرانس، برٹش انڈیا ، ہالینڈ ، نیوزی لینڈ، فلپائن، برطانیہ ، امریکا اور سوویت یونین سے تھا ۔ جاپان کے جنگی جرائم کو تین زمروں میں تقسیم کیا گیا جن میں کلاس اے میں امن کے خلاف جرائم، کلاس بی میں جنگی جرائم اور کلاس سی میں انسانیت کے خلاف جرائم ۔ جن افراد کو مقدمات کے لیے ملزم کے طور پر نامزد کیا گیا اُن پر ایک رہنماء کی حثیت سے جارحانہ جنگ شروع کرکے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرنے کا الزام عائد کیا گیا ۔ ملزمان پر چین ، امریکا، دولت مشترکہ برطانیہ، ہالینڈ ، فرانس (انڈوچائنہ) اور سوویت یونین کے خلاف جنگ شروع کرنے ، جنگی قیدیوں اور عام شہریوں سے غیر انسانی سلوک کرنے اور قتل و غارت کو نہ روک کر اپنے فرائض میں غفلت برتنے کا الزام لگا کر ٹوکیو جنگی جرائم مقدمے کے سامنے پیش کیا گیا ۔ تین مئى 1946 کو سرکاری استغاثہ کے بیان سے مقدے کا باقاعدہ آغاز ہوا ۔ استغاثہ نے پندرہ مراحل میں شہادتیں پیش کیں ۔ شہادتیں جمع کرنے کا عمل بہت کٹھن تھا کیونکہ جاپانی فوج نے اپنی شکست سے پہلے اپنا بہت سا فوجی ریکارڈ ضائع کر دیا تھا ۔ 24 جنوری 1947 کو اسغاثہ کی جانب سے عدالتی کاروائى مکمل کی گئى اور 27 جنوری سے مدعالیان کی جانب سے دفاعی کاروائى کا آغاز کیا گیا ۔ اِن کی دفاع کے لیے سو اٹارنی مقرر تھے ، جنھوں نے عدالتی کاروائى کے آزاد، شفاف اور غیر جانبداری پر شکوک و شبہات کا اظہارکیا ۔ انھوں نے بین الاقوامی قانون میں امن کے خلاف جرائم، سازش، جارحانہ جنگ کی تشریحات کو بھی چیلنج کیا ۔ دفاعی اٹارنیز نے ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹمی بمباری کو بھی جنگی جرائم میں شامل کرنے کے بارے میں دلائل دیے تاہم اُسے نظر انداز کیا گیا جس کی وجہ سے یہ عدالت سخت تنقید کا نشانہ بنی ۔ انھوں نے اپنی جانب سے مقدمے کی کاروائى 225 دِنوں میں مکمل کی ۔ مقدمات کا فیصلہ کرنے کے لیے چھ ماہ تک مزید کاروائى جاری رہی اور 1٫781 صحفات تیار کیے گئے ۔ مسلسل چار روز تک فیصلے سنوائے گئے 12 نومبر 1948 کو عدالتی کاروائى اختتام پزیر ہوئی ۔ ایک اندازے کے مطابق پانچ ہزار جاپانیوں پر مقدمات چلائے گئے جن میں زیادہ سے زیادہ 900 کو پھانسی دی گئى اور آدھے سے زیادہ کو عمر قید کی سزا سنائى گئى ۔ جاپان کے جن سرکاری عہدے داروں کو سزا سنوائى گئى اُن میں وزرائے اعظم ، وزرائے خارجہ ، وزرائے جنگ ، چیف کابینہ سکریٹری، گورنرِ کوریا ، وزرائے بحریہ ، جرمنی کے لیے سفیر، چیف آف ملٹری بیورو افیئرز ، اٹلی کے لیے سفیر ، کابینہ پلاننگ بورڈ کے صدر اور وزیرِ مالیات شامل تھے ۔ فوجی عہدے داروں میں شاہی جاپانی بحریہ جنرل سٹاف ، چیف آف انٹیلجنس ، کمانڈر برائے برما ، کمانڈر برائے شنگھائى ، کمانڈر برائے فلپائن اور دیگر شامل تھے ۔ اِن میں چھ جنرل کے عہدے دار تھے اور ایک کرنل تھا ۔ اِس کے علاوہ ایک سیاسی فلاسفرشومئے اوکاوا کو بھی سزا سنوائى گئى تھی ۔ چیف آف انٹیلیجنس جنرل کینجی دوئى ہارا ، وزیرخارجہ کوکی ہیروتا ، وزیرِجنگ جنرل سیشیرو ایتاگاکی، جنگی کمانڈر جنرل ہیتارو کیمورا، جنگی کمانڈر جنرل ایوانے ماتسوئے اور جنگی کمانڈر جنرل ہیدے کیتو(جو بعد میں وزیر اعظم بنے تھے) کو سزائے موت دی گئى ۔ نیوریمبرگ ٹرائیلز کی طرح ٹوکیو ٹرائیلز پر بھی خاصی تنقید کی گئى کہ مقدمات میں سنوائے گئے فیصلے فاتح مُلکوں کا انصاف تھا ، جو حق بجانب نہیں ہو سکتا ۔ یہ تنقید بھی کی گئى شاہی خاندان کو کیونکر بری اُلذمہ قرار دیا گیا ۔ اُن پر کیوں مقدمات نہیں چلائے گئے۔اتحادی افواج کے سپریم کمانڈر ڈگلس میک آرتھر اور اُن کے عملے نے شہنشاہ شوا اور اُس کے شاہی خاندان کو مقدمات سے بچانے کے لیے بنیادی کردار ادا کیا ۔ شاہی خاندان کے شہزادہ چی چیبو، شہزادہ تسونی یوشی ، شہزادہ آساکا ، شہزادہ ہیگاشی کونی اور شہزادہ ہیرویاسو فوشیمی کو ٹوکیو ٹرائل کا سامنا نہیں کرنا پڑا ۔ میک آرتھر نے بیکٹرئیلوجیکل ریسرچ یونٹوں کے سربراہ شیروایشی اور اُن کے عملے کو بھی مقدمات سے مبرا رکھا ۔

معاہدہ سان فرانسیسکو

[ترمیم]

جب جاپان کو جنگ عظیم دوم میں شکست ہوئى تو امریکا نے جاپان کے تمام انتظامی امور اپنے ہاتھ میں لے کر امریکی افواج نے شاہی جاپانی فوج اور بحریہ کے اڈوں پر قبضہ کر لیا تھا ۔ جاپانی مسلح افواج کی ہر طرح کی سرگرمی مکمل طور پر ختم کی گئى ۔ امریکی فوج بشمول اتحادی افواج کا منصوبہ تھا کہ جاپان کو فوج سے قطعی طور پر صاف کیا جائے اور ایک ایسا آئین مرتب کیا جائے جس میں فوج رکھنے کی کوئى شِق نہ ہو ۔ سن 1950 میں کوریا کی جنگ شروع ہوئى تو جاپان میں اتحادی افواج کے کمانڈر ڈگلس میک آرتھر نے جاپانی حکومت کو پیرا ملٹری ریزرو پولیس رکھنے کی اجازت دی گئى جو بعد میں جاپان کی سیلف ڈیفینس فورس کے نام سے پہچانی جانے لگی ۔ جب معاہدہ سان فرانسیسکو ہوا تو جاپان کی خود مختاری بحال کردی گئى اور اُسے ایک آزاد ریاست کے طور پر تسلیم کیا گیا ۔ معاہدہ سان فرانسیسکو ، امن معاہدے کے نام سے بھی پہچانا جاتا ہے ۔ جاپان نے اتحادی ممالک کے ساتھ اِس معاہدے پر 8 ستمبر1951 کو دستخط کیے جس سے جاپان اور اتحادی ممالک کے درمیان میں جنگ کے خاتمے کا باضابطہ طور پر اعلان کیا گیا ۔ اِس معاہدے کے تحت جاپان نے اتحادی ممالک کے عام شہریوں اور سابق جنگی قیدیوں کو معاوضہ دینے پر رضامندی ظاہر کی ۔ اِس کانفرنس میں امریکا، جاپان، برطانیہ، فرانس، انڈونیشیا، آسٹریلیا اور پاکستان سمیت 52 ممالک نے شرکت کی ۔ برما ، بھارت یوگوسلاویہ کو بھی مدعو کیا گیا تھا تاہم انھوں نے شرکت نہیں کی ۔ عوامی جمہوریہ چین اور تائیوان نے بھی خانہ جنگی کی وجہ سے حصہ نہیں لیا ۔ سوویت یونین نے اِس معاہدے پر سخت تنقید کی اور کہا کہ امریکا اور برطانیہ نے جو امن مسودۀ تیار کیا ہے اُس میں روس کے مفادات کا خیال نہیں رکھا گیا اور نہ ہی مشورہ کیا ۔ سوویت یونین کے نائب وزیرِ خارجہ آندرے گرومیکو اور اُن کے وفد نے کئى بار کاروائى روکنے کی کوشش کی اور جس روز معاہدہ دستخط ہورہا تھا اُس روز گرومیکو نے اعتراضات بھرا ایک تفصیلی بیان جاری کیا ۔ سوویت یونین کو یہ اعتراض بھی تھا کہ اِس معاہدے کے بعد جاپان، امریکا کا فوجی اڈا بن جائے گا جس سے سوویت یونین کی سلامتی کو براہِ راست خطرہ ہے ۔ معاہدے کے مطابق، بونین اور ریوکیو کے جزائر جن میں اوکیناوا،عمامی، میاکو اور یائی یاما کے جزیرے بھی شامل تھے، امریکا کے تسلط میں دیے گئے ۔ جاپانی حکومت، کمپنیوں، تنظیموںاور عام شہریوں کے تمام اثاثوں کو ضبط کیا گیا ۔ ایک اندازے کے مطابق، جاپان کے کوریا میں اثاثوں کی مالیت 46 کروڑ 80 لاکھ امریکی ڈالر سے زیادہ تھی ۔ تائیوان میں 2 ارب 84 کروڑ61 لاکھ ڈالر،شمال مشرقی چین میں 9 ارب 76 کروڑ88 لاکھ،شمالی چین 3 ارب 69 کروڑ 58 لاکھ،وسطی جنوبی چین میں 2 ارب 44 کروڑ 79 لاکھ ڈالر جبکہ دیگر علاقوں میں ایک ارب 86 کروڑ 76 لاکھ ڈالر تھی ۔ جاپان كواثاثوں کے ضبط کرنے کے علاوہ پابند کیا گیا کہ وہ برما کو 20 کروڑ ڈالر، فلپائن کو 55 کروڑ، انڈونیشیا کو 22 کروڑ 30 لاکھ 80 ہزار اور ویت نام کو 3 کروڑ 80 لاکھ ڈالر کا معاوضہ ادا کرے گا ۔ اِس معاہدے کے شِق نمبر5 کے تحت ، جاپان نے اپنے آپ کو پابند کر لیا کہ وہ اپنے بین الاقوامی تنازعات کوپرامن طریقوں سے حل کرے گا ۔ کسی ملک کی خود مختاری یا سیاسی آزادی کے خلاف دھمکی یا طاقت کے استعمال سے گریز کرے گا ۔ اقوام متحدہ کے اپنے چارٹر کے مطابق کی جانے والی کارروائیوں میں معاونت کرے گا ۔

جنگِ کوریا اور جاپان

[ترمیم]

جب امریکا نے جاپان پر قبضہ کر لیا تو جنگ عظیم دوم کے اختتام پر اتحادیوں نے کوریا سے پوچھے بغیر،اُن کی سرزمین کو یک طرفہ طور پر امریکا اور سوویت یونین کے مابین اڑتیئس متوازئ خط پرتقسیم کرنے کا فیصلہ کیا ۔ چونکہ مشرق و مغرب اور سوشلسٹوں اور سرمایہ داروں کے مابین سرد جنگ شروع ہو چکی تھی اس لیے نہ صرف یورپ اور افریقہ بلکہ ایشیا کے کئى حصوں پر ایک اور عالمی جنگ چھڑنے کے آثار خاصے گہرے ہوتے جا رہے تھے، بلکہ خدشہ تھا کہ اب ایک ایٹمی جنگ ہونے والی ہے کیونکہ سنہ 1949 کے اواخر میں سوویت یونین ایٹمی صلاحیت کا تجربہ کرچکا تھا ۔ جزیرہ نماء کوریا پرجنگ کے بادل تیزی کے ساتھ چھاگئے تھے کیونکہ جنوبی کوریا ، امریکا کے زیرِ عتاب تھا جبکہ شمالی کوریا، سوویت یونین اور چین کے زیرِ اثر تھا ۔ کوریا کے اِن دونوں حصوں نے اپنے قانونی ہونے کا دعویٰ کیا ۔ گو کہ جاپان نے کوریا پر سنہ 1910 میں قبضہ کر لیا تھا لیکن اِس سے کافی عرصہ پہلے وہ جاپان کے اثر و رسوخ کے تحت رہا ۔ کوریائى لوگوں نے جاپانی قبضے کے خلاف خاصی طویل جدوجہد کی ۔ جاپان کے خلاف لڑنے والے گوریلہ گروپ کے ایک رہنماء کم ال سنگ تھے جنہیں سوویت یونین سے تربیت اور مالی اور فوجی اعانت ملتی تھی ۔ جب جاپان ایٹمی حملے کے بعد شکست کھانے لگا تھا تو اُسی دوران میں سوویت افواج نے شمالی کوریا کی جانب سے حملہ کیا اور اُس کی فوجیں بڑھتے بڑھتے اڑتیس متوازی خط تک پہنچ گئیں تھیں جہاں پر جزیرہ نماء کوریا کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ۔ گوریلہ لیڈر کیم ال سنگ ، شمالی کوریا کے رہنماء بنے اور انھوں نے مُلک کو سوشلسٹ بُنیادوں پر استوار کرنا شروع کر دیا ۔ انھیں سوویت یونین سے بدستور امداد ملتی رہی لیکن جنوبی کوریا کو امریکا کی جانب سے کوئى خاص مدد نہیں مل رہی تھی ۔ سنہ 1949 کے اوائل میں جاپان سے آزادی حاصل کرتے وقت کیم ال سنگ نے سوویت یونین کے رہنماء جوزف سٹالن سے کہا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ جنوبی کوریا پر چڑھائى کرکے اُس پر قبضہ کر لیا جائے ۔ جون 1950 میں شمالی کوریا ئى حکومت نے دونوں کے ادغام کے لیے تجاویز دیں لیکن جنوبی کوریا نے مسترد کیں ۔ پانچ روز بعد ایک اور تجویز پیش کی گئى لیکن وہ بھی مناسب نہ ہونے کی بنا پر مسترد کردی گئى اور اِسی اثناء شمالی کوریا کی فوجوں نے خطِ تقسیم کے مختلف علاقوں سے حملہ کر دیا اور مختصر وقت اُن کی پیش قدمی جنوبی کوریا کے دار الحکومت سیئول تک پہنچی ۔ اُن کا ارادہ تھا کہ پُسان کی بندرگاہ پر قبضہ کرکے بیرونی کُمک کا راست روک دیا جائے ۔ ستائیس جون 1950 کو سلامتی کونسل نے ایک قرارداد کے ذریعے شمالی کوریا کی جارحیت کی مذمت کی اور اُس کے خلاف فوجی کاروائى کا حکم دیا ۔ سوویت یونین اور چین نے مخالفت کی ۔ اقوام متحدہ کی زیرِ قیاد فوجوں نے بھرپور تیاری کے ساتھ جوابی کاروائى شروع کی ۔ امریکا اور اقوام متحدہ کی افواج کی خوش قِسمتی تھی کہ جاپان اگلے محاذ کے لیے بہترین اڈے کے طور پر موجود تھا ۔ جاپان کی بندرگاہیں، ہوائى اڈے اور دیگر تنصیبات کے ساتھ ساتھ ایک تعلیم یافتہ اور جفاکش جاپانی قوم سے بھی استفادہ کیا جاسکا ۔ امریکی بحریہ کے لیے جاپان کے مغربی کیوشو میں بندرگاۀ ساسیبو کافی مدد گار ثابت ہوئى کیونکہ یہ علاقہ کوریا کے جنوب سے تقریباً 165 سمندری میل کے فاصلے پر تھا ۔ اِسی طرح ٹوکیو کے نزدیک یوکوسوکا کا علاقہ جنگی سازو سامان کی صفائى اور مرمت کے لیے بہترین اڈا تھا ، حالانکہ یہ جنگی محاذ سے 700 سمندری میل کے فاصلے پر تھا ۔ 15 ستمبر 1950 کو امریکی جنرل میک آرتھر نے شمالی کوریائى فوجوں پر 40 ہزار امریکی اور برطانوی افواج کی بھرپور قوت کے ساتھ پیچھے سے حملہ کیا اور شمالی کوریائى فوجوں مارتے دھکیلتے ہوئے چین کے دریائے یالو تک پہنچا دیا ۔ جنرل میک آرتھر کا اندازہ تھا کہ چین مداخلت نہیں کرے گا مگر یہ سب غلط ثابت ہوا اور چین نے تقریباً 3 لاکھ فوج سے حملہ کیا اور سال کے اختتام تک اقوام متحدہ کی فوجوں کو مارتے ہوئے واپس خط تقسیم تک پہنچا دیا ۔ اِس کے بعد جنوری 1951 میں چینی اور کوریائى فوجوں نے موسمِ سرما کا بڑا حملہ کرکے سیئول تک چڑھائى کی ۔ امریکی زیرقیادت اقوام متحدہ کی فوجوں کے حوآلے بڑی حد تک پست ہو چکے تھے اور یہاں تک کہ مقالہ کرنے کے لیے ایٹمی حملہ پر سوچا جانے لگا ۔ کئى محاذوں پر لڑائى کے ساتھ ساتھ جنگ بندی کے مذاکرات بھی ہوتے رہے ۔ سرد جنگ کی پہلی پراکسی جنگ 1950 سے 1953 تک لڑی گئى اور بالاخر 27 جولائى 1953 کو جنگ بندی کا معاہدہ دستخط ہوا ۔ جنگِ کوریا سے جاپان کو اقتصادی طور پر بڑے فوائد حاصل ہوئے ۔ چونکہ اقوام متحدہ کی افواج نے زیادہ تر جنگی کارروائیوں کے لیے جاپان کی سرزمین استعمال کی لہذا یہاں کے کارخانوں اور فیکٹریوں کی پیداوار میں بھر پور اضافہ ہوا کیونکہ ضروریات یہیں سے خرید کر پوری کی جاتی تھیں ۔ روزگار میں تیزی سے اضافہ ہوا اور تعمیراتی کا بڑے پیمانے پر ہوا ۔ چونکہ جاپان، امریکا کے فوجی دفاعی چھتری تلے رہ رہا ہے اس لیے اُسے دفاع پر نہ ہونے کے برابر خرچ کرنا پڑا اور تمام فنڈز معاشی ترقی، سرمایہ کاری، صنعتوں کے قیام اور بہتر معاشرتی زندگی پر خرچ ہونے لگے ۔ چونکہ جاپان خطے کے ایک اہم قوت کے طور نظر انداز نہیں کیا جا سکتا تھا اس لیے معاہدہ سان فرانسیسکو کے ذریعے اُس کے بین الاقوامی وقار کو بحال کیا ۔ بعد میں اِسی معاہدے پر نظرثانی کرکے باہمی تعاون اور سلامتی کا ایک نیا معاہدہ دستخط کیا گیا ۔

جاپان ۔ امریکا باہمی تعاون اور سلامتی کا معاہدہ

[ترمیم]

جنگ کوریا اور سوویت یونین اور چین کی فوجی طاقت نے امریکا کو مجبور کر دیا تھا کہ وہ اپنے دشمن مُلک جاپان کے ساتھ باہمی تعاون اور سلامتی کی بنیاد اپنے روابط کو مزید مضبوط کر دے ۔ چونکہ جاپان کی کوریا سمیت چین اور روس کے ساتھ ماضی کے ادوار کئى تلخیوں سے بھرے پڑے تھے لہذا یہ پیش رفت دونوں ممالک کے مفاد میں تھی ۔ جاپان اور امریکا نے سنہ 1951 کے سلامتی کے معاہدے پر نظر ثانی کرنے اور ایک نیا معاہدہ دستخط کرنے کے لیے سنہ 1959 میں مذاکرات کا آغاز کیا اور بالاخر 19 جنوری 1960 کو دونوں مُلکوں نے واشنگٹن ڈی سی میں باہمی تعاون اور سلامتی کے معاہدے پر دستخط کیے ۔ لیکن توقعات کہیں زیادہ خراب صورت حال اُس وقت سامنے آئى جب یہ معاہدہ منظوری کے لیے 5 فروی کو جاپانی پارلیمان میں پیش کیا گیا ۔ حزب اختلاف نے اِس معاہدے کی بھرپور مخالفت کی اور ایوان نمائندگان میں تند و تیز بحث ہوئى ۔ جاپان سوشلسٹ پارٹی نے اُس وقت کی حکمراں جماعت لبرل ڈیموکریٹک پارٹی کے قانون سازوں کو ایوانِ زریں میں داخل ہونے سے روکنے کی کوشش کی ۔ بڑی تعداد میں پولیس فورس بُلوائى گئى ۔ طالب علموں اور مزدور انجمنوں نے مُلک بھر میں وسیع پیمانے پر مظاہرے شروع کیے ۔ صورت حال یہاں تک ابتر ہوئى کہ امریکی صدر آئیزن ہاور کا طے شُدہ وقت کے مطابق دورہ نہ ہو سکا ۔ یہ جنگ عظیم دوم کے بعد جاپان کا سب سے بڑا اندرونی سیاسی انتشار سمجھا جاتا ہے ۔ اِسی معاہدے کی وجہ سے جاپان کے وزیرِاعظم کیشی نوبوسوکی کو بھی مستعفی ہونا پڑا ۔ سولہ جون کو معاہدہ منظور ہوا، جس کے مطابق اگر جاپانی انتظامیہ کے ماتحت کسی علاقے پر مسلح حملہ ہوا تو دونوں ممالک ایک دوسرے کی مدد کرنے کے پابند ہوں گے ۔ چونکہ جاپان کو صرف خود دفاعی فوج رکھنے کی اجازت ہے اس لیے وہ امریکی سرزمین پر امریکا کی مدد کا اختیار نہیں رکھتا ۔ جاپان میں موجود امریکی افواج اگر کسیقِسم کی فوجی نقل و حمل کرے گی تو وہ جاپانی حکومت کو پہلے سے اطلاع دے گی ۔ اِس کے علاوہ بین الاقوامی تعاون اور باہمی اقتصادی تعاون کو فروغ دینے پر بھی اتفاق کیا گیا ۔ یہ معاہدہ دس سال کے لیے دستخط کیا گیا ۔ ٹوکیو اولمپک 1964 جاپان میں گرمائى اولمپک کھیلوں کا انعقاد سن 1964 میں کیا گیا تھا ۔ گو کہ اِس سے پہلے سن 1940 کے اولمپک کھیلوں کی میزبانی بھی جاپان کو دینے کی منظوری مل گئى تھی ، مگر جاپان کی جانب سے چین پر حملے کے باعث یہ اعزاز ہیلسنکی کو دیا گیا تاہم کھیلوں کا انعقاد نہ ہو سکا کیونکہ جنگ عظیم دوم کی وجہ اِن کھیلوں کی منسوخی کا اعلان کیا گیا ۔ ٹوکیو اولمپک میں امریکا نے 36 گولڈ کے ساتھ پہلے ، سوویت یونین نے 30 گولڈ میڈل کے ساتھ دوسرے اور جاپان نے 16 گولڈ میڈلز کے ساتھ تیسری پوزیشن حاصل کی تھی ۔ یہ ایشیا میں منعقد ہونے والے پہلے اولمپک کھیل تھے ۔ ایک اندازے کے مطابق ، ٹوکیو میں کھیلوں کے انعقاد کے لیے تقریباً 3 بلین امریکی ڈالرز خرچ کیے گئے ۔

جاپانی صنعتی پیداوار میں تیز ترقی

[ترمیم]

امریکی قبضے اور ٹوکیو اولمپک کھیلوں کے بعد جاپانی معاشرہ تیزی سے مغربی انداز اپنانے لگا۔ امریکی موسیقی، لباس اور اندازِ زندگی اپنایا جانے لگا ۔ جاپان کے کئى دانشوروں کی تخلیقات کو یورپ اور امریکا میں پذیرائى ملنے لگی ۔ جاپانی انیمیشن کارٹون اور مانگا کامِک کتابیں دُنیا بھر میں مشہور ہونے لگیں ۔ کہا جاتا ہے کہ 1960 کی دہائى میں جاپان نے اتنی بہترین معاشی پالیسیاں مرتب کیں کہ اُس کا سالانہ اقتصادی شرح نمو 9 فیصد تک پہنچا ۔ خاص طور پر آٹوموبائل اور الیکٹرانکس کی صنعت نے زیادہ ترقی کی ۔ بندرگاہوں، سڑکوں اور ریلوے لائنوں کی تعمیر کی گئى ، جس کی وجہ سے جاپانی برآمدات تیزی سے بڑھانے میں بہت زیادہ مدد ملی ۔ سرکاری اخراجات میں کمی کی گئى اور ٹیکس آمدنی کو عوامی فلاحی منصوبوں کے لیے بہتر طور پر استعمال کیا جانے لگا ۔ چونکہ لبرل ڈیموکریٹک پارٹی کو اکثریت حاصل تھی جس نے 1963 کے انتخابات میں 55 فیصد ووٹ جیتے تھے اور ایوانِ زریں میں 60 فیصد نشیستیں جیت لیں تھی اس لیے اُسے بہتر پالیسیاں تشکیل دینے میں خاصا اختیار حاصل تھا اور اُس نے مُلک کو بڑی اقتصادی ترقی سے ہمکنار کیا ۔ اُسی دور میں شنکانسن ٹرین کا آغاز کیا گیا ۔ سن 1964 میں آغاز کرنے والے توکائیدو شنکانسن کی ابتدا میں رفتار 210 کلومیٹر فی گھنٹہ تھی جس کی رفتار سن 2003 میں مقناطیسی نظام کے تحت ورلڈ ریکارڈ 581 کلومیٹر فی گھنٹہ تک پہنچی ۔ سنہ 1960 کی دہائى میں جاپانی گاڑی ساز صنعت نے تیزی سے ترقی کرنی شروع کی اور کہا جاتا ہے کہ جاپانی وزارتِ بین الاقوامی تجارت و صنعت نے اِس حوالے سے کلیدی کردار ادا کیا ۔ 1950 کی دہائى کی وسط میں “عوامی گاڑی” تیار کرنے کے لیے کئى اعانتیں دیں لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جب بین الاقوامی سطع پر مسابقت سازی میں تیزی آئى تو وزارت نے 60 کی دہائى کی وسط میں جاپانی گاڑی سازوں کے ادغام پر زور دیا اور نسان نے پرنس موٹرز اور اِسی طرح ٹویوٹا نے ہینو اور ڈائیاہتسو کو ضم کیا ۔ اِس فیصلے کے بہت دور رس نتائج سامنے آئے اور جاپان چند سالوں میں دُنیا کا گاڑیاں بنانے کا چھٹا بڑا ملک بنا ۔ جنگ عظیم دوم کے بعد جاپانی الیکٹرانکس مصنوعات میں بھی تیزی سے ترقی ہوئى اور معیار و پیداوار دونوں میں اضافہ ہوا ۔ اِس میدان میں سونی نے بڑا کردار ادا کیا ۔ یہ کمپنی سنہ 1946 میں ماسارو ایبوکا اور آکیو موریتا نے قائم کی تھی ۔ سونی نے جدید الیکٹرانکس میں بڑی تیزی سے ترقی کی اور پہلا پاکٹ سائز ریڈیو ایجاد کرکے سونی نے جاپان اور دُنیا بھر میں بڑا نام کمایا ۔ بعد میں جاپانی کمپنیوں نے ٹرانزسٹرز کے بعد سیمی کنڈکٹرز کی پیداوار شروع کی جس کی دُنیا بھر میں بہت مانگ رہی ۔ جاپانی مصنوعات نے بہتر معیار کی وجہ سے دُنیا کر ہر مارکیٹ پر غالبہ پانے کی کوشش کی جس کی وجہ سے اُسے امریکا اور یورپ کے مصنوعات کے مقابلے میں ترجیح دی جانے لگی ۔ عموماً کہا جاتا ہے کہ جاپان کی ترقی میں لبرل ڈیموکریٹک پارٹی نے بھی اہم کردار ادا کیا ہے ۔ اِس پارٹی کا سنہ 1955 میں اُس وقت قیام عمل میں لایا گیا جب جناب یوشیدا شیگیرو کی زیرِقیادت لبرل پارٹی اور جناب ایچیرو ہاتویاما کی قیادت میں جاپان ڈیموکریٹک پارٹی کا ادغام کیا گیا ۔ یہ دونوں قدامت پسند جماعتیں تھیں اور اِن کا مقصد جاپان سوشلسٹ پارٹی کے خلاف ایک مضبوط اتحاد قائم کرنا تھا ۔ اِسی اتحاد کی بدولت انھوں نے بائیں بازوکی جماعتوں کے خلاف اکثریت حاصل کرکے اقتدار سنبھالا ۔ ایل ڈی پی پر الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ امریکی انٹیلیجنس ایجنسی سی آئى اے سے بھرپور مالی معاونت حاصل کرتی رہی ہے تاکہ سوشلسٹ اور کمیونسٹ نظریات والی بائیں بازو کی جماعتیں اقتدار میں نہ آئیں ۔ امریکی پالیسی تھی کہ جاپان میں کسی بھی صورت میں سوشلسٹوں اور کمیونسٹوں کا زور نہ بڑھے کیونکہ جاپان کے ہمسایہ ممالک سوویٹ یونین ، شمالی کوریا اور چین پہلے ہی سوشلزم کا نظام رائج کرچکے تھے اور امریکا ، یورپ میں بھی سوشلزم کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے اقتصادی اور فوجی اقدامات کرچکا تھا ۔ امریکی جنرل میک آرتھر نے 6 جون 1950 کو اُس وقت کے وزیر اعظم یوشیدا کے نام ایک خط بھیجا تھا جس میں اعلٰی سرکاری عہدوں پر تعینات کمیونسٹ نظریات کی حامل شخصیات نکالنے کی تاکید کی گئى تھی ۔ جریدے ایشیا پیسیفیک کے مطابق، 1948 سے 1950 تک کی مدت میں انتظامی عہدوں، سرکاری اسکولوں کے اساتذہ اور یونیورسٹی پروفیسروں اور نجی کمپنیوں سے سوشلسٹ نظریات کے 27 ہزار سے زائد افراد کو نکال دیا گیا تھا ۔

جاپان اور جنوب ۔ مشرقی ایشیا ء

[ترمیم]

جاپان نے اُن ایشیائى ممالک کے ساتھ تعلقات بہتر کرنے کی بھرپور کوشش کی جن پر جاپانی شاہی فوج کا قبضہ رھا یا جاپانی جارحیت کا شکار رہے ۔ گو کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ تعلقات میں بہری آئى ہے تاہم یا یاسکونی زیارت کا ذکر کرنا تمہید کے طور پر ضروری ہے کیونکہ یہ معاملہ اب بھی کبھی کبھار اُس وقت تنازع کی صورت اختیار کرلیتا ہے جب جاپانی پارلیمنٹ کے اراکین یا مقتدر شخصیات اِس زیارت کا دورۀ کرتے ہیں ۔ یہ شنتو مذہب کی زیارت ہے جواُن افراد کی روحوں کی یاد کے لیے ہے جنھوں نے سنہ 1867 سے 1951 تک سلطنتِ جاپان کی خدمت کی یا لڑتے ہوئے مرگئے ہیں ۔ ایک اندازے کے مطابق ، زیارت کے ریکارڈ بُک میں چوبیس لاکھ ، چھیاسٹ ہزار پانچ سو بتیس روحوں کا اندراج کیا جا چکا ہے ۔ اِس میں ایک ہزار اڑسٹھ وہ افراد بھی ہیں جنہیں جنگ عظیم دوم میں جنگی جرائم کے پاداش میں اتحادیوں کے قائم کردہ ٹربیونلز نے سزائے موت سنا دی تھی ۔ جاپانیوں کو یہ افسوس زندگی بھر رہے گا کہ اُن کے افراد کو جنگی جرم کی بنا پر سزائے موت دی گئى لیکن ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹمی حملے میں لاکھوں بے گناہ افراد کو ہلاک وہ زخمی کرنے کے جرم میں کسی امریکی کو سزاء نہیں دی گئى ۔ جاپان کے اراکین پارلیمنٹ یا وزیر اعظم نے جب بھی اِس زیارت کا دورۀ کیا ہے تو چین، شمالی و جنوبی کوریا اور تائیوان سمیت کئى حلقوں سے تنقید بھری آوازیں اُٹھتی ہیں کہ جن لوگوں نے اِن ممالک کے عوام کے خلاف جنگی جرائم کیے ہیں انھیں کسی بھی صورت میں تعظیم پیش نہ کی جائے ۔ جاپان کے سابق وزیر اعظم جُن ایچیرو کوئى زومی اِس حوالے سے خاصے تنقید کا نشانہ بنتے رہے ہیں جنھوں نے سنہ 2001 سے 2006 تک باقاعدگی سے یاسکونی زیارت کا نجی طور پردورۀ کیا ۔ جنگ عظیم دوم کے بعد ، جاپانی خارجہ پالیسی نے کروٹ لی اور جنوب مشرقی ایشیا کے جن ممالک کو جاپانی عسکریت پسندی سے بہت نقصان پہنچا تھا اُن کے ساتھ سنہ 1950 کی دہائى میں روابط بحال اور مضبوط کرنے کے لیے مختلف اقدامات کیے گئے ۔ سنہ 1954 میں جاپان نے کولمبو منصوبے میں حصہ لیا اور کئى جاپانی تکنیکی اور زرعی ماہرین کو خطے کے مختلف ممالک میں تربیت اور رہنمائى فراہم کرنے کے لیے بھیجا ۔ اُسی سال کاروباری تنظیم ایشین ایسوسیشن قائم کی گئى جس کا مقصد، جاپانی آلات اور اور ٹیکنالوجی کو ایشیا کے ترقی پزیر ممالک کو بہم پہنچانا تھا ۔ ایک سال بعد، جاپان نے اقوام متحدہ کے اقتصادی کمیشن برائے ایشیا اور مشرقِ بعید میں شمولیت اختیار کی اور سنہ 1955 ہی میں جاپان نے ایشیا۔افریقہ کانفرنس کے لیے وفد بھیجا ۔ جب لبرل ڈیموکریٹک پارٹی معرِض وجود میں آئى تو اُس وقت کے وزیر خارجہ نے خیال ظاہر کیا کہ اُن کا مُلک ، جنوب مشرقی ایشیا میں استحکام پیدا کرنے کے لیے طویل مدتی اقتصادی منصوبوں کا ارادہ رکھتا ہے ۔ اُسی دہائى میں جاپان نے جنگ کے نقصانات کا ازلہ کرنے کے لیے سنہ 1960 سے پانچ سالہ مدت میں جنوبی ویت نام کو 3 کروڑ 90 لاکھ ڈالر ادا کرنے پر اتفاق کیا ۔ اِسی طرح چھ سالہ مدت میں لاؤس کو 20 لاکھ 80 ہزار ڈالر، کمبوڈیا کو پانچ سال میں 40 لاکھ 20 ہزار ڈالر اور تھائى لینڈ کو 2 کروڑ 68 لاکھ ڈالر کی ادائیگی پر رضامندی ظاہر کی گئى ۔ چونکہ اِسی دہائى میں جنگِ ویت نام شروع ہوگئى تھی جو 30 اپریل 1975 تک جاری رہی ، تاہم جاپان نے اپنا غیر جانبدار موقف اپنایا ۔ اِس جنگ میں کوریا کی تاریخ دہرائى گئى جہاں شمالی ویت نام کی کمیونسٹ اتحادیوں نے مدد کی جبکہ جنوبی ویت نام کی امریکا اور جنوب مشرقی ایشیائى معاہدہ تنظیم سیٹو نے مدد کی ۔ اِس جنگ میں ویت نامیوں نے امریکی استعمار کے خلاف گوریلہ جنگ لڑی جو امریکا کے لیے بہت مہنگی پڑی اور بالاخر اُسے وہاں سے نکلنا پڑا ۔ ویت نام کی جنگ میں جاپان نے فوجی کردار ادا نہیں کیا بلکہ مزاکرات کے عمل کو آگے بڑہانے کی حوصلہ افزائى کی ۔ امن قائم ہونے کے بعد جاپان اور ویت نام کے سفارتی تعلقات اگست 1975 میں قائم ہوئے ۔

جاپان ۔ چین تعلقات

[ترمیم]

جاپان اور چین کی تاریخ کئى باہمی رشتوں اور رنجشوں سے بھری پڑی ہے ۔ کیونکہ جغرافیائى لحاظ سے دونوں ممالک کے مابین پانی کی ایک تنگ سی پٹی حائل ہے اس لیے ایک دوسرے پر اثر انداز ہونا ایک فطری سی بات ہے۔ جنگ عظیم دوم کے بعد ، دونوں ممالک کے دوطرفہ تعلقات میں اُس وقت تیزی آئى جب 1960 کی دھائى میں روس اور چین کے تعلقات خراب ہوئے جس کی بنا پر روس نے اپنے تمام ماہرین واپس بلوا لیے اور ایسے میں چین کے پاس بہتر راستہ یہی تھا کہ وہ جاپان کی تکنیکی مہارت اور مستحکم مالی حثیت سے استفادہ کرے۔ اِس سلسلے میں پہلا بڑا قدم لیؤ۔تاکاساکی معاہدہ تھا جس کی بدولت جاپان چین کو صنعتی کارخانوں کی خرید کے لیے مالی معاونت دینے پر رضامند ہوا اور چین کو ٹوکیو میں اپنا تجارتی مِشن کھولنے کی اجازت دی گئى۔ دونوں مُلکوں کے باہمی تعلقات میں اُس وقت تیزی پیدا ہوئى جب 1972 میں امریکی صدر رچرڈ نکسن نے عوامی جمہوریہ چین کا پہلی بار دورۀ کیا ۔ یہ دورۀ اُس وقت طے پایا جب اُس وقت کے امریکا کے قومی سلامتی کے مشیر ھنری کسینجر نے پاکستان کے توسط سے خُفیہ طور پر بیجنگ جاکر باہمی تعلقات میں بہتری لانے کے لیے نکسن کے دورے کا اہتمام کیا۔ جاپان کے اُس وقت کے وزیر اعظم تاناکا کاکوئے نے اقتدار سنبھالنے کے بعد بیجنگ کا دورۀ کیا اور ستمبر 1972 میں دونوں ممالک کے مابین سفارتی تعلقات قائم ہوئے۔ ماؤژے دونگ کی وفات کے بعد چین میں اقتصادی اصلاحات کو آغاز ہوا تو ٹوکیو اور بیجنگ کے تعلقات میں وسعت لانے کی مزید گنجائش پیدا ہوئى ہے، کیونکہ اب چین میں نجی ملکیت کے کاروبار کو ترقی ملنے لگی تھی اور یوں جاپانی سرمایہ کاروں کو سرمایہ لگانے کے کئى شعبے پیدا ہوئے۔ جاپان اور چین کے مابین امن معاہدے کے لیے سنہ 1974 میں بھی کوشش کی گئى تھی لیکن کچھ شِقوں پر اختلاف کی وجہ سے یہ سلسلہ رُک گیا تھا۔ شمالی تائیوان میں واقع سینکاکو جزائر پر اور ریوکیو جزائر کے جنوبی حصے پر بھی اختلاف تھا۔ چار سال بعد دونوں ممالک نے امن عمل کو ایک بار پھر بڑھایا اور 12 اگست 1978 کو امن اور دوستی کے معاہدے پر دستخط ہوئے۔ چین کے رہنماء ڈینگ ژیاؤ پنگ اور جاپان کے وزیر اعظم فوکودا تاکئو نے اِس معاہدے پر دستخط کیے اور یوں ایشیا کی دو بڑی طاقتوں کے مابین پرانی دشمنی دوستی میں بدلنے کی راہ ہموار ہوئی۔

جغرافیہ

[ترمیم]

جاپان 14,125 جزائر پر مشتمل ہے جو ایشیا کے بحر الکاہل کے ساحل کے ساتھ پھیلے ہوئے ہیں۔ یہ 3000 کلومیٹر (1900 میل) شمال مشرق-جنوب مغرب میں بحیرہ اوخوتسک سے مشرقی بحیرہ چین تک پھیلا ہوا ہے۔ ملک کے پانچ اہم جزائر، شمال سے جنوب تک، ہوکائیڈو، ہونشو، شیکوکو، کیوشو اور اوکیناوا ہیں۔ ریوکیو Ryukyu جزائر، جس میں اوکیناوا Okinawa شامل ہے، کیوشو کے جنوب میں ایک سلسلہ ہے۔ نانپو جزائر جاپان کے مرکزی جزائر کے جنوب اور مشرق میں ہیں۔ ایک ساتھ وہ اکثر جاپانی مجمع الجزائر کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ سنہ 2019ء تک، جاپان کا رقبہ  377,975.24 مربع کلومیٹر  (145,937.06 مربع میل) ہے۔[4] جاپان کے پاس 29,751 کلومیٹر (18,486 میل) پر دنیا کا چھٹا سب سے طویل ساحل ہے۔ اپنے دور دراز کے جزیروں کی وجہ سے، جاپان کے پاس دنیا کا آٹھواں سب سے بڑا خصوصی اقتصادی زون ہے، جو 4,470,000 مربع کلومیٹر (1,730,000 مربع میل) پر محیط ہے۔

جاپانی مجمع الجزائر 67 فیصد جنگلات اور 14 فیصد زرعی زمینوں پر مشتمل ہے۔ یہ بنیادی طور پر ناہموار اور پہاڑی علاقہ رہائش کے لیے محدود ہے۔ اس طرح رہنے کے قابل ساحلی علاقوں میں، آبادی کی کثافت بہت زیادہ ہے۔ جاپان 40 واں سب سے زیادہ گنجان آباد ملک ہے۔ ہونشو کی آبادی کی کثافت 2010ء تک سب سے زیادہ 450 افراد فی مربع کلومیٹر  (1200 افراد فی مربع میل) ہے، جب کہ ہوکائیڈو Hokkaido میں 2016ء تک سب سے کم کثافت یعنی 64.5 افراد فی مربع کلومیٹر ہے۔ 2014 تک، جاپان کے کل رقبے کا تقریباً 0.5 فیصد دوبارہ دعویٰ کی گئی زمین (umetatechi) ہے۔ جھیل بیوا ایک قدیم جھیل اور ملک کی سب سے بڑی میٹھے پانی کی جھیل ہے۔

بحرالکاہل کی آگ کی انگوٹھی Ring of Fire کے ساتھ واقع ہونے کی وجہ سے جاپان کافی حد تک زلزلوں، سونامی اور آتش فشانوں کی زد میں ہے۔ 2016ء کے عالمی رسک انڈیکس کے مطابق اس میں قدرتی آفات کا 17 واں سب سے زیادہ خطرہ ہے۔ جاپان میں 111 فعال آتش فشاں ہیں۔ تباہ کن زلزلے، اکثر سونامی کے نتیجے میں، ہر صدی میں کئی بار آتے ہیں؛ 1923ء کے ٹوکیو زلزلے نے 140,000 سے زیادہ لوگ مارے تھے۔ مزید حالیہ بڑے زلزلے 1995ء کا عظیم ہانشین زلزلہ اور 2011ء کا توہوکو زلزلہ ہیں، جس نے ایک بڑی سونامی کو جنم دیا تھا۔

انتظامى تقسیم

[ترمیم]

جاپان تقریباً 3000 سے زائد جزیروں پر مشتمل ہے۔ انتہاى شمالى جزیرہ ہوکائیدو کہلاتا ہے اس کے بعد ہونشو، شیکوکو، کیوشو اور اکیناوا ہے۔ جاپان آٹھ علاقہ جات میں منقسم جو سرکاری انتظامی اکائیاں نہیں ہیں، لیکن روایتی طور ایک بڑی تعداد میں جاپان کی علاقائی تقسیم کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔

جاپان کے علاقہ جات کا نقشہ۔ شمال سے جنوب تک: ہوکائیدو (سرخ)، توہوکو (گہرا سبز)، کانتو (نیلا)، چوبو (بھورا)، کانسائی (نیلگوں سبز)، چوگوکو (ہلکا سبز)، شیکوکو (گلابی) اور کیوشو (پیلا)۔
جاپان کے 47 پریفیکچر ہیں جن کے نام مندرجہ ذیل ہیں۔
ہوکائیدو توہوکو کانتو چوبو کانسائی چوگوکو شیکوکو کیوشو اوکیناوا

1. ہوکائیدو

2. اوموری
3. ایواتے
4. میاگی
5. اکیتا
6. یاگاماٹا
7. فوکوشیما

8. ایباراکی
9. توچیگی
10. گونما
11. سائیتاما
12. چیبا
13. ٹوکیو
14. کاناگاوا

15. نیگاتا
16. تویاما
17. اشیکاوا
18. فوکوئی
19. یاماناشی
20. ناگانو
21. گیفو
22. شیزوکا
23. ایچی

24. میہ
25. شیگا
26. کیوٹو
27. اوساکا
28. ہیوگو
29. نارا
30. واکایاما

31. توتوری
32. شیمانے
33. اوکایاما
34. ہیروشیما
35. یاماگوچی

36. توکوشیما
37. کاگاوا
38. اہیمے
39. کوچی

40. فوکوکا
41. ساگا
42. ناگاساکی
43. کوماموتو
44. اوئیتا
45. میازاکی
46. کاگوشیما

47. اوکیناوا

حکومت

[ترمیم]

جاپان میں پارلمانی جمہوریت ہے مگر یہ ملک شہنشاہ جاپان کی ملکیت ہے شہنشاہ معظم کی رہائیش جاپانی شاہی محل میں ہے۔

جاپان ایک وحدانی ریاست اور آئینی بادشاہت ہے جس میں شہنشاہ کی طاقت رسمی کردار تک محدود ہے۔ اس کی بجائے ایگزیکٹو پاور جاپان کے وزیر اعظم اور اس کی کابینہ کے پاس ہے، جس کی خود مختاری جاپانی عوام کے پاس ہے۔ ناروہیتو جاپان کے شہنشاہ ہیں، جنھوں نے 2019 میں کرسنتھیمم تخت پر اپنے والد اکی ہیتو کی جگہ لی تھی۔ جاپان کا قانون ساز ادارہ "نیشنل ڈائیت" کہلاتا ہے، جو ایک دو سطحی پارلیمنٹ ہے۔ یہ 465 نشستوں کے ساتھ ایوانِ زیریں پر مشتمل ہوتی ہے، جو ہر چار سال بعد یا تحلیل ہونے پر مقبول ووٹوں سے منتخب ہوتی ہے اور 245 نشستوں کے ساتھ ایوانِ بالا پر مشتمل ہوتا ہے، جس کے مقبول منتخب اراکین چھ سال کی مدت، تمام منتخب دفاتر کے لیے خفیہ رائے شماری کے ساتھ،  پوری کرتے ہیں۔ 18 سال سے زیادہ عمر کے بالغوں کے لیے آفاقی حق رائے دہی ہے۔ حکومت کے سربراہ کے طور پر وزیر اعظم کو وزرائے مملکت کی تقرری اور برطرف کرنے کا اختیار ہے اور ڈائٹ کے اراکین میں سے نامزد ہونے کے بعد شہنشاہ کی طرف سے تقرری کی جاتی ہے۔ فومیو کشیدا جاپان کے وزیر اعظم ہیں۔ انھوں نے 2021ء میؓ لبرل ڈیموکریٹک پارٹی کی قیادت کا انتخاب جیتنے کے بعد عہدہ سنبھالا۔ دائیں بازو کی بڑی لبرل ڈیموکریٹک پارٹی 1950 کی دہائی سے ملک کی غالب پارٹی رہی ہے، جسے اکثر 1955 کا نظام کہا جاتا ہے۔

تاریخی طور پر چینی قانون سے متاثر ہو کر، جاپانی قانونی نظام نے ایڈو  دور میں کوجی کاتا اوسادامیگاکی Kujikata Osadamegaki جیسی تحریروں کے ذریعے آزادانہ طور پر ترقی کی۔ 19ویں صدی کے آخر سے، عدالتی نظام بڑی حد تک یورپ، خاص طور پر جرمنی کے شہری قانون پر مبنی ہے۔ 1896 میں، جاپان نے جرمن قانون Bürgerliches Gesetzbuch پر مبنی ایک سول کوڈ قائم کیا، جو دوسری جنگ عظیم کے بعد بھی تبدیلیوں کے ساتھ نافذ العمل ہے۔ جاپان کا آئین، جسے 1947 میں اپنایا گیا، دنیا کا سب سے قدیم غیر ترمیم شدہ آئین ہے۔ قانون کی ابتدا مقننہ میں ہوتی ہے اور آئین کا تقاضا ہے کہ شہنشاہ اسے قانون سازی کی مخالفت کرنے کا اختیار دیے بغیر ڈائٹ کے ذریعے منظور شدہ قانون سازی کو جاری کرے۔ جاپانی  قانون کا مرکزی حصہ چھ کوڈز کہلاتا ہے۔ جاپان کے عدالتی نظام کو چار بنیادی درجوں میں تقسیم کیا گیا ہے یعنی سپریم کورٹ اور نچلی عدالتوں کے تین درجے۔

بین الپارلیمانی یونین کے اعداد و شمار کے مطابق، جاپانی پارلیمنٹ کے ارکان کی اکثریت مرد ہے اور ان کی عمریں 50 سے 70 کے درمیان ہیں۔ اپریل 2023 میں جاپانی پبلک براڈکاسٹر NHK کے مطابق، 26 سالہ ریوسوکے تاکاشیما جاپان کی اب تک کی سب سے کم عمر میئر ہیں۔

معیشت

[ترمیم]

امریکا، چین اور جرمنی کے بعد جاپان عمومی جی ڈی پی کے لحاظ سے دنیا کی چوتھی بڑی معیشت ہے۔ اور پی پی پی کی طرف سے چوتھی سب سے بڑی معیشت ہے۔ سنہ 2021ء تک، جاپان کی لیبر فورس دنیا کی آٹھویں بڑی افرادی قوت ہے، جو 68.6 ملین سے زیادہ کارکنوں پر مشتمل ہے۔ سنہ 2022ء تک، جاپان میں بے روزگاری کی شرح تقریباً 2.6 فیصد ہے۔ اس کی غربت کی شرح G7 ممالک میں دوسرے نمبر پر ہے اور آبادی کے 15.7 فیصد سے زیادہ ہے۔ جاپان کے پاس ترقی یافتہ معیشتوں کے درمیان عوامی قرض کا جی ڈی پی کے ساتھ سب سے زیادہ تناسب ہے، جس میں قومی قرض کا تخمینہ 2022 تک GDP کے مقابلے میں 248 فیصد لگایا گیا ہے۔ جاپانی ین امریکی ڈالر اور یورو کے بعد دنیا کی تیسری سب سے بڑی محفوظ کرنسی ہے۔ جاپان 2022 میں دنیا کا پانچواں سب سے بڑا برآمد کنندہ اور چوتھا سب سے بڑا درآمد کنندہ تھا۔ اس کی برآمدات 2021 میں اس کی کل جی ڈی پی کا 18.2 فیصد تھیں۔ 2022 تک، جاپان کی اہم برآمدی منڈیوں میں چین (23.9 فیصد، بشمول ہانگ کانگ) اور ریاستہائے متحدہ (18.5 فیصد) تھے۔ اس کی اہم برآمدات موٹر گاڑیاں، لوہے اور سٹیل کی مصنوعات، سیمی کنڈکٹرز اور آٹو پارٹس ہیں۔ 2022 تک جاپان کی اہم درآمدی منڈیاں چین (21.1 فیصد)، امریکا (9.9 فیصد) اور آسٹریلیا (9.8 فیصد) تھیں۔ جاپان کی اہم درآمدات مشینری اور آلات، پیٹرولیم، کھانے پینے کی اشیاء، کیمیکلز اور اس کی دیگر صنعتوں کے لیے خام مال ہیں۔

سرمایہ داری کی جاپانی شکل میں بہت سی الگ خصوصیات ہیں: کیریٹسو انٹرپرائزز بااثر ہیں اور تاحیات ملازمت اور سنیارٹی کی بنیاد پر کیریئر کی ترقی جاپانی کام کے ماحول میں عام ہے۔ جاپان کے پاس ایک بڑا کوآپریٹو سیکٹر ہے، جس میں دنیا کے دس سب سے بڑے کوآپریٹیو میں سے تین ہیں، جن میں 2018 تک سب سے بڑا کنزیومر کوآپریٹو اور سب سے بڑا زرعی کوآپریٹو بھی شامل ہیں۔ یہ مسابقتی اور معاشی آزادی کے لیے اعلیٰ درجہ رکھتا ہے۔ جاپان 2019 میں عالمی مسابقتی رپورٹ میں چھٹے نمبر پر تھا۔ اس نے 2019 میں 31.9 ملین بین الاقوامی سیاحوں کو راغب کیا اور اندرون ملک سیاحت کے لیے 2019 میں دنیا میں گیارہویں نمبر پر تھا۔ 2021 سفر اور سیاحت کی مسابقتی رپورٹ نے 117 ممالک میں جاپان کو دنیا میں پہلے نمبر پر رکھا ہے۔ 2019 میں اس کی بین الاقوامی سیاحت کی وصولیاں 46.1 بلین امریکی ڈالر تھیں۔

انفراسٹرکچر

[ترمیم]

نقل و حمل

[ترمیم]

جاپان نے نقل و حمل کے بنیادی ڈھانچے میں بہت زیادہ سرمایہ کاری کی ہے۔ملک میں تقریباً 1,200,000 کلومیٹر (750,000 میل) سڑکیں ہیں جن میں 1,000,000 کلومیٹر (620,000 میل) شہر، قصبے اور گاؤں کی مقامی سڑکیں،  130,000 کلومیٹر (81,000 میل) صوبہ جاتی سڑکیں، 54,736 کلومیٹر (34,011 میل) قومی شاہراہیں اور 7641 کلومیٹر (4748 میل) قومی ایکپریس وے  شامل ہیں۔ (2017 تک)

سنہ 1987ء میں نجکاری کے بعد سے، درجنوں جاپانی ریلوے کمپنیاں علاقائی اور مقامی مسافروں کی نقل و حمل کی منڈیوں میں مقابلہ کر رہی ہیں۔ بڑی سات کمپنیوں میں جے آر انٹرپرائزز، سیبو ریلوے، کنتیتسو اور کیوکارپوریشن Keio Corporation شامل ہیں۔ بڑے شہروں کو جوڑنے والی تیز رفتار شنکانسین (بلٹ ٹرین) اپنی حفاظت اور وقت کی پابندی کے لیے مشہور ہیں۔ جاپان میں سنہ 2013ء  تک 175 ہوائی اڈے ہیں۔ سب سے بڑا گھریلو ہوائی اڈا، ٹوکیو کا ہنیڈا ہوائی اڈا ہے، جو 2019ءمیں ایشیا کا دوسرا مصروف ترین ہوائی اڈا تھا۔ کائی ہن Keihin اور ہانشن Hanshin سپر پورٹ 7.98 اور 5.22 ملین کے .TEU لحاظ سے دنیا کے سب سے بڑے ہوائی اڈوں میں سے ہیں۔ (2017ء کے مطابق)

توانائی

[ترمیم]

سنہ 2019ء تک، جاپان میں 37.1 فیصد توانائی پیٹرولیم سے، 25.1 فیصد کوئلے سے، 22.4 فیصد قدرتی گیس سے، 3.5 فیصد پن بجلی اور 2.8 فیصد جوہری توانائی سے پیدا کی گئی، دیگر ذرائع کے علاوہ۔ نیوکلیئر پاور  2010ء میں 11.2 فیصد سے کم تھی۔ مئی 2012ء تک ملک کے تمام جوہری پاور پلانٹس کو آف لائن کر دیا گیا تھا، مارچ 2011ء میں فوکوشیما ڈائیچی جوہری تباہی کے بعد جاری عوامی مخالفت کی وجہ سے، اگرچہ حکومتی عہدے داروں نے عوامی رائے کو متاثر کرنے کی کوشش جاری رکھی۔ کم از کم کچھ کو خدمت میں واپس کرنے کے طور پر، سینڈائی نیوکلیئر پاور پلانٹ 2015ء میں دوبارہ شروع ہوا اور اس کے بعد سے کئی دوسرے جوہری پاور پلانٹس دوبارہ شروع ہو چکے ہیں۔ جاپان کے پاس اہم ملکی ذخائر کی کمی ہے اور اس کا انحصار درآمدی توانائی پر بہت زیادہ ہے۔ اس لیے ملک کا مقصد اپنے ذرائع کو متنوع بنانا اور توانائی کی اعلی کارکردگی کو برقرار رکھنا ہے۔

پانی کی فراہمی اور صفائی

[ترمیم]

پانی اور صفائی کے شعبے کی ذمہ داری وزارت صحت، محنت اور بہبود اور گھریلو استعمال کے لیے پانی کی فراہمی کے انچارج کے درمیان مشترکہ ہے۔ وزارت زمین، انفراسٹرکچر، ٹرانسپورٹ اور سیاحت، آبی وسائل کی ترقی کے ساتھ ساتھ صفائی ستھرائی کی ذمہ دار بھی ہے۔ ماحولیات کی وزارت، محیطی پانی کے معیار اور ماحولیاتی تحفظ کی ذمہ دار ہے؛ اور داخلی امور اور مواصلات کی وزارت، افادیت کی کارکردگی کی بینچ مارکنگ کے انچارج بھی ہے۔ پانی کے بہتر ذریعہ تک رسائی جاپان میں عالمگیر ہے۔ تقریباً 98 فیصد آبادی عوامی سہولیات سے پائپ کے ذریعے پانی کی فراہمی حاصل کرتی ہے۔

آبادی

[ترمیم]

جاپان کی آبادی تقریباً بارہ کروڑ پچاس لاکھ ہے، جس میں سے تقریباً بارہ کروڑ ب8س لاکھ جاپانی شہری ہیں (2022 کا تخمینہ)۔ باقی غیر ملکی باشندوں کی ایک چھوٹی سی آبادی بنتی ہے۔ جاپان دنیا کا تیز ترین عمر رسیدہ ملک ہے اور کسی بھی ملک کے بزرگ شہریوں کا سب سے زیادہ تناسب ہے، جو اس کی کل آبادی کا ایک تہائی پر مشتمل ہے۔ یہ دوسری جنگ عظیم کے بعد کے بیبی بوم کا نتیجہ ہے، جس کے بعد متوقع عمر میں اضافہ اور شرح پیدائش میں کمی واقع ہوئی۔ جاپان میں 1.4 کی کل زرخیزی کی شرح ہے، جو 2.1 کی تبدیلی کی شرح سے کم ہے اور دنیا کی سب سے کم شرح میں سے ہے۔ اس کی اوسط عمر 48.4 ہے، جو دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ 2020 تک، 28.7 فیصد سے زیادہ آبادی 65 سال سے زیادہ ہے یا جاپانی آبادی میں سے چار میں سے ایک 65 سال سے زیادہ ہے۔ چونکہ کم عمر جاپانیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد شادی نہیں کر رہی ہے یا بے اولاد رہ رہی ہے، توقع ہے کہ 2065 تک جاپان کی آبادی کم ہو کر آٹھ کروڑ اسی لاکھ رہ جائے گی۔ آبادیاتی ڈھانچے میں تبدیلیوں نے کئی سماجی مسائل پیدا کیے ہیں، خاص طور پر افرادی قوت کی آبادی میں کمی اور سماجی تحفظ کے فوائد کی لاگت میں اضافہ ہوا ہے۔ جاپان کی حکومت کا منصوبہ ہے کہ 2060 تک کام کرنے کی عمر کے ہر فرد کے لیے تقریباً ایک بوڑھا فرد ہوگا۔ امیگریشن اور پیدائشی ترغیبات کو بعض اوقات ملک کی عمر رسیدہ آبادی کی مدد کے لیے نوجوان کارکنان فراہم کرنے کے حل کے طور پر تجویز کیا جاتا ہے۔ 1 اپریل، 2019 کو، جاپان کا نظرثانی شدہ امیگریشن قانون نافذ کیا گیا، جس میں بعض شعبوں میں مزدوروں کی کمی کو کم کرنے میں مدد کے لیے غیر ملکی کارکنوں کے حقوق کا تحفظ کیا گیا۔

2019 میں، جاپان کی کل آبادی کا 92 فیصد شہروں میں رہتا تھا۔ دار الحکومت ٹوکیو کی آبادی ایک کروڑ چالیس لاکھ (2022) ہے۔ یہ گریٹر ٹوکیو ایریا کا حصہ ہے، جو 38,140,000 افراد (2016) کے ساتھ دنیا کا سب سے بڑا میٹروپولیٹن علاقہ ہے۔ جاپان ایک نسلی اور ثقافتی طور پر یکساں معاشرہ ہے، جس میں جاپانی لوگ ملک کی آبادی کا 98.1 فیصد ہیں۔ ملک کے اقلیتی نسلی گروہوں میں مقامی اینو اور ریوکیوان لوگ شامل ہیں۔ زینیچی Zainichi کوریائی، چینی، فلپائنی، زیادہ تر جاپانی نسل کے برازیلین اور زیادہ تر جاپانی نسل کے پیرو باشندے بھی جاپان کے چھوٹے اقلیتی گروہوں میں شامل ہیں۔ براکومن Burakumin ایک سماجی اقلیتی گروپ بناتا ہے۔

مذاہب

[ترمیم]

جاپان کا اہم ترین مذہب شنتومت کہلاتا ہے، جس کو انگریزی میں Shintoism کہا جاتا ہے۔ دیگر مذاہب میں بدھ مت، عیسائیت اور اسلام ہیں۔ اسلام یہاں کم تعداد میں موجود ہے، لیکن یہاں پر کچھ بڑے شہروں میں مساجد ضرور واقع ہیں، جن میں مسجد کوبے سب سے پرانی اور مشہور مسجد ہے۔ جاپان میں مساجد کی تفصیل کے لیے دیکھیے؛

جاپان میں مساجد کی فہرست

مزید دیکھیے

[ترمیم]

حوالہ جات

[ترمیم]
  1. "Japan Languages" (بزبان انگریزی)۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ جنوری 29, 2017 
  2. "National Flag and National Anthem"۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ جنوری 29, 2017۔ The Rising Sun Flag and "Kimi Ga Yo" are respectively the national flag and anthem of Japan. This was formalized in 1999 with the Law Regarding the National Flag and National Anthem. 
  3. "History of Tokyo"۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ جنوری 29, 2017۔ The Edo Period lasted for nearly 260 years until the Meiji Restoration in 1868, when the Tokugawa Shogunate ended and imperial rule was restored. The Emperor moved to Edo, which was renamed Tokyo. Thus, Tokyo became the capital of Japan 
  4. 法制執務コラム集「法律と国語・日本語」 (بزبان اليابانية)۔ Legislative Bureau of the House of Councillors۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ جنوری 19, 2009 
  5. "Literacy and Language Classes in Community Centers, Country Profile: Japan"۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ جنوری 29, 2017 
  6. According to legend, Japan was founded on this date by Emperor Jimmu، the country's first Emperor.
  7. "Facts about Japan, General Information"۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ جنوری 29, 2017 
  8. "Japan Statistical Yearbook 2010" (PDF)۔ Statistics Bureau۔ صفحہ: 17۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ جنوری 15, 2011 
  9. "最新結果一覧 政府統計の総合窓口 GL08020101"۔ Statistics Bureau of Japan۔ 06 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ اپریل 27, 2016 
  10. ^ ا ب پ ت "World Economic Outlook Database,اکتوبر 2016 – Report for Selected Countries and Subjects"۔ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (IMF)۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ اکتوبر 1, 2016 
  11. "World Factbook: Gini Index"۔ سی آئی اے۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 مئی, 2011 
  12. "2015 Human Development Report" (PDF)۔ 2015۔ اخذ شدہ بتاریخ دسمبر 14, 2015 
  13. ظاہر شاہ افریدی جاپان کے قومی نشریاتی ادارے میں ملازم ہیں ان کا یہ مضمون جاپان کی اخبار سائیٹ[مردہ ربط] پر شائع ہو چکا ہے افریدی صاحب کی اجازت سے شائع کیا جارہا ہے تحقیق و تدوین ۔ ظاہرشاہ آفریدی۔
  14. Charles T. Keally (اپریل 27, 2009)۔ "Kofun Culture"۔ www.t-net.ne.jp۔ Japanese Archaeology۔ اخذ شدہ بتاریخ جولائی 28, 2018 
  15. Joseph Mitsuo Kitagawa (1987)۔ On Understanding Japanese Religion۔ Princeton University Press۔ صفحہ: 145۔ ISBN 978-0-691-10229-0۔ اخذ شدہ بتاریخ جولائی 28, 2018۔ emphasis on the undisrupted chronological continuity from myths to legends and from legends to history, it is difficult to determine where one ends and the next begins. At any rate, the first ten legendary emperors are clearly not reliable historical records. 
  16. Boleslaw Szczesniak (1954)۔ "The Sumu-Sanu Myth. Notes and Remarks on the Jimmu Tenno Myth"۔ Monumenta Nipponica۔ 10 (1/2): 107–126۔ ISSN 0027-0741۔ JSTOR 2382794۔ doi:10.2307/2382794 
  翻译: